جرمنی کی حکومت نے نسل پرستی اور صہیونیت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک فلسطینی دانشور کو ایک ماہ کے اندر اندر ملک چھوڑںے کا حکم دیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی مصنف اور دانشور خالد برکات حال ہی میں برلن پہنچے تھے جہاں انہیں ‘فلسطینی تحریک آزادی اور عرب آفاق’ کے عنوان سے ایک سیمینار سے خطاب کرنا تھا۔ جرمنی کی حکومت نے اسرائیلی ریاست کے جرائم بے نقاب کرنے کے ڈر سے فلسطینی دانشور کےاقامے میں تجدید کرنے سے انکار کردیا اور انہیں 31 جولائی 2019ء تک ملک چھوڑںے کا حکم دیا گیا ہے۔
خالد برکات کی اہلیہ اور سرگرم سماجی کارکن شارلوت کیٹز نے بتایا کہ جرمن پولیس نے ان کے شوہر کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے راستے میں روکا اور انہیں پولیس مرکز لے گئے۔ وہاں انہیں بتایا گیا کہ وہ کانفرنس میں شرکت نہیں کرسکتے۔ اس کےعلاوہ ان پر کسی بھی فورم سے خطاب کرنے یا میڈیا سے بات چیت پر پابندی ہے۔ وہ کسی ثقافتی یا سیاسی اجتماع میں بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر حصہ لینے کے بھی مجاز نہیں۔ وہ جرمنی چھوڑنے کی تیاری کریں اور 31 جولائی تک ملک سے نکل جائیں۔
خالد برکات کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کو کانفرنس سے خطاب کرنے سے اس لیے روک دیا گیا کہ وہ کانفرنس اسرائیل کے خلاف منعقد کی جا رہی تھی اور اس کا انعقاد روکنا جرمنی حکام کی ذمہ داری تھی۔
انہوں نے جرمن حکومت کی طرف سے اپنےشوہر پرپابندی لگانے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ اقدام جرمنی میں اسرائیلی بائیکاٹ تحریک ‘بی ڈی ایس’ پر پابندی عاید کیے جانے کے بعد عاید کی گئی جس کا مقصد جرمنی میں فلسطینیوں کے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا بھی جرم بن گیا ہے۔