جمعه 15/نوامبر/2024

منامہ کانفرنس کیوں بے وقعت ثابت ہوگی؟

جمعرات 27-جون-2019

بحرین کے دارالحکومت مناما میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس نے ذہن میں ایک بار پھر میڈریڈ امن کانفرنس کی یاد تازہ کر دی۔ میڈریڈ کانفرنس سنہ 1991ء میں امریکا کے مطالبے پر منعقد کی گئی جس میں عربوں اوراسرائیلی لیڈر شپ کو ایک میز پر بٹھایا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اسرائیلی وزیراعظم اسحاق شامیر اور عرب لیڈر شپ امن کے لیے امریکا کے ایما پر مذاکرات کی میز پر جمع تھے۔ واضح رہے کہ اسحاق شامیر پر سنہ 1948ء میں فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے تحت برطانیہ کی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات بھی قائم ہیں۔

میڈریڈ کانفرنس اور مناما کانفرنس دونوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان دونوں کا فائدہ اسرائیل نے اٹھایا۔ دونوں کے انعقاد کے وقت عالمی اور علاقائی حالات ایسے تھے جنہیں اسرائیل نے اپنے حق میں استعمال کیا۔ بیسویں صدی کے آخر میں سوویت یونین ٹوٹنے اور امریکا کے سپرپاور بننے کا فائدہ بھی اسرائیل نے اٹھایا۔ امریکا نے فلسطینیوں کو عربوں کے ساتھ جوڑ کر ‘ریاست کا وعدہ ‘ دلایا گیا اور فلسطینیوں کو داخلی خود مختاری کا جھانسہ دے کر انہیں الجھانے کی کوشش کی گئی۔

سنہ 2001ء میں نائن الیون کے واقعے کو بھی صہیونی ریاست نےخوب اپنے حق میں استعمال کیا۔ اگر نائن الیون نہ ہوتا تو امریکا کبھی بھی اسرائیل کی حفاظتی دیوار اور نسلی دیوار کے منصوبوں، یاسر عرفات کو زہر دے کر اور الشیخ حمد یاسین کو بمباری میں شہید کرنے کی اجازت نہ دیتا۔ نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک نیا طوفان برپا کردیا اور صہیونی ریاست نے اسے خوب اپنے حق میں استعمال کیا۔

اسرائیل نے نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکیوں‌ کو قائل کیا کہ وہ بھی دہشت گردی کے بڑے متاثرین میں شامل ہے۔

موجودہ عالمی اور علاقائی سیاسی حالات اور بحرانوں‌ نے بھی اسرائیل کو اپنے ‘فیور’ میں استعمال کیا۔ امریکا کی موجودہ انتظامیہ جتنی آج اسرائیل کی طرف دار اور جانب دار ہے ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ عرب ممالک کے درمیان اتحاد کا تاریخی فقدان ہے جس نے ملکوں کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے۔ فلسطینی دھڑوں میں بھی مصالحت کا عمل تعطل کا شکار ہے۔

ایسے حالات میں اسرائیل عرب ممالک کی داخلی کمزوریوں کو ایک بار پھر اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ عرب ممالک میں سے بیشتر کو اپنا اقتدار اور کرسی عزیز ہے۔ چنانچہ یہ ممالک کسی بھی صورت میں اسرائیل کی مخالفت کر کے اپنے پشت پناہ امریکا کی مخالفت مول نہیں‌ لے سکتے۔ چنانچہ انہیں بادل نخواستہ اسرائیل کی حمایت کرنا پڑے گی۔ یوں اسرائیل عربوں کو استعمال کرکے خطے میں اپنی بالا دستی اور اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔

اسرائیل ایسے حالات پیدا کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے قیام کی کوششیں آگے نہ بڑھ سکیں اور عرب ممالک میں بھی فلسطینیوں کی آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازیں دم توڑ جائیں۔ فلسطینی قوم نہ آج اور نہ ہی مستقبل میں آزادی کی منزل سے ہم کنار ہوسکتے۔

بحرین کانفرنس فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن پروگرام کا نقطہ آغاز نہیں بلکہ یہ کانفرنس عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان براہ راست روابط کا نقطہ آغاز ہے۔ یوں یہ کانفرنس خطے میں صرف اسرائیل کے مفاد اور اس کی خدمت کے لیے منعقد کی  گئی ہے۔ اس کانفرنس میں فلسطینیوں کو اسرائیل میں اقلیت کا درجہ دینے یا تارکین وطن کی حیثیت دینے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔

دوسری طرف اپنے اقتدار کے بھوکے عرب حکمرانوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ فلسطینی قوم کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ عرب ممالک امریکا کے دبائو اور اپنے اقتدار کی بقاء فکر میں غاصب صہیونی ریاست کو آئینی حیثیت دینے جا رہے ہیں۔ اس کانفرنس کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ غرب اردن اور القدس پر اسرائیل کی بالادستی قائم رہے گی اور اس بالادستی پر عرب ممالک کو کوئی خاص اعتراض نہیں ہے۔ البتہ عرب ممالک اسرائیل کے راستے سے فلسطین میں سرمایہ کاری کر کے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلی معیشت میں معاونت کریں گے۔

مناما کانفرنس کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں فلسطینیوں کا اجتماعی موقف سامنے آیا۔ فلسطینیوں نے اجتماعی طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ اگر کوئی عرب ملک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ کرے اور جو اب ٹرمپ کی جیب میں اربوں ڈالر ڈالتا ہے بے شک ڈالے۔ اہم یہ ہے کہ فلسطینی قیادت اس کانفرنس کے بائیکاٹ پر متفق ہے۔ نہ تو فلسطینی اتھارٹی نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور نہ فلسطین کی کسی دوسری قابل ذکر جماعت نے اس کانفرنس کو قبول کیا ہے۔ یوں تمام فلسطینیوں‌ نے متفقہ طور پر امریکا اور اس کے عرب حواریوں کو پیغام دیا ہے کہ ‘نہیں’ ہم ایسی کسی سازش کو قبول نہیں کریں‌ گے۔

فلسطینیوں کے اس اتفاق کا دوسرا پیغام یہ ہے کہ قوم کے دیرینہ حقوق اور اصولی مطالبات پر پوری قوم متحد ہے۔ اگرچہ فلسطینی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں فروعی اعتبار سےاختلاف ہے مگر جوہری امور میں پوری قوم ایک صفحے پر ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فلسطینی قوم نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ بحرین کانفرنس ان کے نزدیک پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ فلسطینیوں کو بائی پاس کر کے کوئی فیصلہ فلسطینی قوم پر مسلط نہیں‌ کیا جاسکتا۔ اگر ایسا کوئی گیا تو وہ ‘اعلان بالفور’ کے مشابہ کوئی سازشی منصوبہ ہوگا جسے فلسطینی قوم مسترد کردے گی۔ ایسا کوئی بھی منصوبہ فلسطینی قوم کی گردنوں‌ پرمسلط نہیں کیا جائے گا۔ فلسطینی قوم اپنے ملک میں خود موجود ہے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی وہ خود مختار اور مجاز ہے، نہ کہ اقتدار بچانے کے لیے امریکیوں اور صہیونیوں کی کاسہ لیسی کرنے والے عرب حکمراں ہیں۔

لینک کوتاه:

کپی شد