جمعه 15/نوامبر/2024

‘صدی کا دھوکہ’ ۔۔۔ زمین کے بدلے سرمایہ کاری کا دھونس!

بدھ 3-جولائی-2019

خلیجی ریاست بحرین کے دارالحکومت مناما میں جون کے آخٰری ہفتے ہونے والی نام نہاد اقتصادی کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر کے مشیر اور داماد جیرڈ کشنر اس طرح زرق برق لباس پہن کراس کانفرنس میں جلوہ گر ہوئے جیسے وہ شادی کی تقریب میں شرکت کررہے ہیں۔ اس تقریب میں ہونے والی بحث اور نام نہاد اقتصادی منصوبوں کے ساتھ دنیا کے سامنے ایک فوٹوسیشن بھی پیش کیا تاکہ دنیا یہ تصور کرے کہ امریکیوں کو فلسطینیوں‌کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی ہے اور ان کا غم کھائے جا رہی ہے۔

جیرڈ کشنر نے جس اقتصادی خوشحالی بہ مقابلہ امن کانفرنس کا انعقاد کیا اس سے خطاب میں خود اپنے دعوے کی نفی کردی۔ انہوں‌نے منامہ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ‘فلسطینی قوم کے  قضیے کے دائمی اور منصفانہ سیاسی حل کے بغیر معاشی خوشحالی اور ترقی ممکن نہیں’۔  لگتا ہے کہ وہ یہ سچ غلطی سے کہہ گئے

گویا کشنر نے خود اعتراف کیا کہ مسئلہ فلسطین کےسیاسی حل سے قبل اقتصادی امن کا فارمولہ بے کار ہے۔ گویا وہ خود یہ کہہ رہے ہیں‌جس مناما کانفرنس کی ترویج میں وہ مہینوں سے مصروف تھے خود ہی اسے بے وقعت قرار دے رہےہیں کیونکہ کانفرنس کا مقصد فلسطینیوں‌کے معاشی خوشحالی کا پروگرام پیش کرنا تھا۔

کشنر اور اس کےحواریوں کا اصل مقصد فلسطینیوں‌کی خوش حالی ہرگز نہیں بلکہ اس منصوبے کے پیچھے’صدی کی ڈیل’ کی گہری اور وسیع سازش کارفرما ہے۔ صدی کی ڈیل کے ذریعے اسرائیل ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کےوجود نامسعود کو مزید مستحکم کرنا، یہودی توسیع پسندی کو دوام دینا اور عالمی برادری کو فلسطینی قوم کے منصفانہ حقوق کی حمایت سے دور کرنا ہے۔

جہاں تک 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی بات ہے تو یہ منصوبہ بھی صرف فرضی ہے۔10 سال کے دوران فلسطینیوں‌کے لیے 28 ارب ڈالر کی رقم فراہم کی جائے گی جس میں‌ایک بڑی رقض سود پرقرض کی شکل میں ادا کی جائے گی۔ اگر اس رقم کو فلسطین کے قومی وسائل جنہیں صہیونی ریاست دن رات لوٹ رہی ہے سے تقابل کیا جائے تو یہ ایک حقیر ترین رقم ہے۔ جب کہ قومی، اخلاقی، دینی اور سماجی اعتبار سے اس رقم کی حیثیت ویسے ہی ختم ہوجاتی ہے۔

صرف غزہ کی پٹی میں موجود گیس کے ذخائر کولے لیں۔ غزہ میں موجود گیس کے وسائل کے لیے’عظیم خزانہ’ کا نام دیا گیا۔ اگر غزہ کی گیس سے استفادہ کیا جائے تو فلسطینی سالانہ ساڑھے چار ارب ڈالر کی رقم کما سکتی ہے۔ 10 سال میں یہ رقم 45 ارب ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ گیس کے قدرتی وسائل کے علاوہ دیگر قدرتی وسائل جنہیں صہیونی ریاست لوٹ مار کررہی ہے اس کےعلاوہ ہیں۔

اس کے بعد فلسطینیوں کی آمدن کا ایک بڑا حصہ مسجد اقصیٰ اور القدس میں مذہبی مقامات کی سیاحت سے وابستہ ہے۔ مسجد اقصیٰ  کی زیارت کے لیے پوری دنیا سے لاکھوں زائرین اور مسلمان ہرسال فلسطین کا رخ کریں گے۔ بیت المقدس میں موجود المہد اور القیامہ گرجا گھر عیسائی برادری کے لیے کعبے کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر ان مقامات کی زیارت کے لیے ہرسال آنے والے لاکھوں مسیحی زائرین کے ذریعے اکٹھی ہونے والی آمدن شامل کی جائے تو وہ بھی اربوں ڈالر میں پہنچتی ہے۔

جن جعلی اور جھوٹے سرمایہ کاری منصوبوں کا مناما کانفرنس میں اعلان کیا گیا ان کے یومیہ اخراجات ہی بہت زیادہ ہیں۔ فلسطینی قوم کے لیے مسئلہ پیسے او رقم کا نہیں بلکہ آزادی، وطن اورعزت کا ہے۔ یہ فلسطینی قوم کا مطالبہ ہے سامان نہیں۔

مجھے سنہ 2014ء کی جنگ میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جارحیت کا وہ واقعہ یاد کرنے دیں جب قابض فوجیوں‌نے غزہ میں‌گھس کر ایم معمر فلسطینی خاتون کو پانی پلایا۔ اسے پانی پلاتے ہوئے تصاویر بنائیں اور اس کے بعد اسے گولیاں مار کر شہید کردیا۔

صہیونی صرف فوٹو سیشن کے لیے فلسطینی بڑھیا کو پانی پلا رہے تھے۔ اگراس کے ساتھ انہیں کوئی ہمدردی ہوتی تو وہ اسے ماورائے عدالت قتل کرتے۔ صہیونی رات کی تاریکی میں فلسطینی قوم، ارض فلسطین، ان کی خوابوں، ان کے مستقبل اور مقدسات پرقبضے کے منصوبے بناتے ہیں۔

مناما میں بھی ہمیں فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہیں ملا۔ قضیہ فلسطین کو نظرانداز کیا گیا۔ قضیہ فلسطین کا دفاع کرنے والے غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر فوٹو بنوا رہے تھے۔ یہ اچھا کہ فلسطینیوں‌نے اس کانفرنس میں‌شرکت نہیں کی ورنہ وہ بھی اس جعلی سازی کے گواہ بن جاتے۔

فلسطین کو سامان یا چند گز زمین کی بات نہیں۔ یہ ہرمومن اور مسلمان کا مسئلہ ہے۔ ہرآزاد اور زندہ ضمیر انسان کا مسئلہ ہے، عزت وناموس کا مسئلہ ہے۔ عزت کی ماہیت کا کوئی ادراک نہیں کرسکتا اور دشمن یہ سمجھتا ہے کہ یہ کوئی سامان ہے جسے خریدا یا بیچا جائے گا۔

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از رضوان الاخرس