شنبه 10/می/2025

الشیخ حسن یوسف ‘جادہ مزاحمت’ کا بہادر سپاہی!

جمعرات 4-جولائی-2019

اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطین کے ایک بہادر اور بے خوف رہ نما، رکن پارلیمنٹ اور جادہ مزاحمت کے جانثار سپاہی الشیخ حسن یوسف اس وقت فلسطینی، اسرائیل اور عرب ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز ہیں۔ الشیخ حسن یوسف کے حوالے سے تازہ ابلاغی مہم کے پیچھے صہیونی ریاست کی طرف سے ان کی کردار کشی اور ان کے خاندان کو بدنام کرنے کی منظم سازش ہے جس کے ذریعے صہیونی بالعموم پوری فلسطینی مزاحمتی قیادت بالخصوص الشیخ حسن یوسف اور ان کے خاندان کو زیر عتاب لایا جا رہا ہے۔

صہیونی حکام اور اسرائیلی میڈیا کی طرف سے اس وقت الشیخ حسن یوسف اور ان کے خاندان کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ حسن یوسف کا خاندان منحرف ہوچکا ہے اور ان کے بیٹے صہیونیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الشیخ حسن یوسف کا ایک بیٹا مصعب انحراف کاشکار ہوا اور اسے صہیوںیوں نے بلیک میل کر کے گمراہ کیا ہے مگر ان کے خاندان کے دیگر تمام مردو خواتین پورے عزم کے ساتھ تحریک آزادی اور مزاحمت کے قافلے میں پورے استقامت کے ساتھ شامل ہیں۔ وہ جیلیں کاٹتے، ماریں‌ کھاتے، تشدد برداشت کرتے اور صہیونی ریاست کےدیگر انتقامی اور نسل پرستانہ حربوں کا سامنا کرتے ہیں۔

الشیخ حسن یوسف کی ذات سراپا مزاحمت ہے۔ پوری فلسطینی قوم ان کا دل سے احترام کرتی اور ان کی قربانیوں اور خدمات کو سراہتی ہے۔ ان سے فکری اور نظریاتی یا سیاسی اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی قضیہ فلسطین اور مظلوم فلسطینی قوم کے لیے خدمات کو کسی صورت میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ صہیونی زندانوں کی نذرہو چکا ہے۔ اگر اُنہیں چند دن کے لیے اسرائیلی قید سے رہائی بھی ملتی ہے تو وہ عارضی ہوتی ہے اور انہیں بغیر کسی وجہ کے دوبارہ حراست میں لے لیا جاتا ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق 64 سالہ الشیخ حسن یوسف اس وقت صہیونی ریاست کی طرف سے ابلاغی اور نفسیاتی حربوں‌ کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں معنوی طورپر قتل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الشیخ حسن یوسف غرب اردن میں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے رکن اور پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ صہیونی ریاست کی جیلوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔

الشیخ حسن یوسف نے اوائل عمرہی سے مزاحمت اور جہاد وعزیمت کے راستے میں شمولیت اختیار کی۔ عوام میں ان کی بے پناہ مقبولیت سے صہیونی ہمیشہ خوف زدہ رہے۔ انہیں غرب اردن میں سیاسی اور مزاحمتی میدان سے دور رکھنے کے لیے بار بار گرفتار کیا جاتا اور جیلوں میں قید کیا جاتا رہا ہے۔

رواں سال اپریل میں الشیخ حسن یوسف کی گرفتاری عمل میں‌لائی گئی تو یہ ان کی18 ویں گرفتاری تھی۔ وہ 64 سال میں سے 23 سال اسرائیلی عقوبت خانوں کی کال کوٹھڑی کی میں زندگی بسر کر چکے ہیں۔ اب تک کی آخری گرفتاری سے قبل وہ صرف چھ ماہ اسرائیلی زندانوں سے باہر رہے۔ انہیں گذشتہ برس اکتوبر میں 11 ماہ کی انتظامی قید کے بعد رہا کیا گیا تھا۔

صبر واستقامت کا  کوہ گراں

الشیخ حسن یوسف اب بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں اور کے بال سفید ہو چکے ہیں مگر ان کے پائے استقامت میں آج بھی وہی استقلال اور استقامت ہے جو برسوں پہلے تھا۔ ان کی استقامت اور استقلال ہی صہیونیوں کے لیے پریشانی کا موجب ہے۔ صہیونی جلاد جسمانی، نفسیاتی اورذہنی تشدد کے جتنے حربے استعمال کرسکتے تھے الشیخ حسن یوسف کے ناتوان جسم پر آزماتے رہے ہیں مگر ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں‌ آئی۔

الشیخ حسن یوسف اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی اسیران کے لیے بھی مینارہ نور ہیں۔ بلند اخلاقی معیار، محبت کےجذبے سے سرشار، قید اور آزادی میں فلسطینیوں کے خیراخواہ اور مسلم امہ کے بہی خواہ ہیں۔

وہ میدان کار زار کے ایک بہادر سپاہی کی طرح ایک لمحے کے لیے آرام نہیں کرتے بلکہ صہیونی جیلوں میں‌ بھی وہ حتیٰ الامکان اسیران، الاقصیٰ، القدس، فلسطین اور مسلم امہ کے لیے اپنا مشن جاری رکھتے اور غاصبانہ یہودی قبضے اور تسلط کے خلاف سرگرم عمل رہتے ہیں۔

قیدو بند کی صعوبتیں

الشیخ حسن یوسف کی پہلی گرفتاری سنہ 1971ء میں عمل میں آئی۔ اس وقت وہ فلسطین نیشنل ایکشن کے فورم پر سرگرم تھے۔ اس کے بعد انہیں سنہ 2003ء تک چند مہینوں کے لیے گرفتار کیا جاتا اور پھر رہا کر دیا جاتا۔ ان کی گرفتاری اور رہائی کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ سنہ 2003ء کے بعد ان کی گرفتاری کا عرصہ مہینوں کے بجائے برسوں میں‌ بدل گیا۔ سنہ 2003ء کے بعد انہیں ساڑھے چھ سال قید رکھا گیا۔

سنہ 1996ء میں اسرائیل نے حماس اور اسلامی جہاد کے 417 رہ نمائوں کیو فلسطین سے بے دخل کر کے لبنان منتقل کردیا۔ ان میں الشیخ حسن یوسف بھی شامل تھے۔

پچیس ستمبر 2005ء کو فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں انہوں‌ نے حماس کی ٹکٹ پر حصہ لیا اور بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیاب ہوگئے۔ انہیں حماس نے غرب اردن میں قومی اسلامی قوتوں کےدرمیان رابطے کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کیا۔

حسن یوسف کا تعارف

الشیخ حسن یوسف سنہ 1955ء کو غرب اردن کے وسطی شہر رام اللہ کےالجانیہ  قصبے میں پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کا نام الشیخ حسن یوسف دار خلیل رکھا۔ انہوں‌ نے ابتدائی تعلیم کفر نعمہ قصبے کے ایک اسکول سے حاصل کی۔
ان کے والد ایک مذہبی شخصیت اور گائوں کی مسجد میں امام اور خطیب تھے۔ اس طرح مسجد اور دینی جماعتوں کے ساتھ تعلق انہیں ورثے میں ملا تھا۔

پندرہ سال کی عمر میں الشیخ حسن یوسف کو رام اللہ کی التحتا مسجد کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کے بعد انہوں‌ نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے القدس یونیورسٹی کے شعبہ اصول دین میں داخلہ کیا۔ انہوں‌ نے بیتونیا کی ایک خاتون صباح ابو سالم کےساتھ شادی کی جس سے ان کے 6 بچےاور بچیاں ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی