صہیونی قابضریاست نے بیمار اور زخمی خاتون 49سالہ وفا جرار کو 4 گھنٹے تک ایک فوجی جیپ کے اندر انسانی ڈھال بنائے رکھا حالانکہوہ شدید زخمی ہونے کی وجہ سے بے ہوش تھی اور اسے کسی قسم کی طبی امداد فراہم نہیںکی گئی۔
وفا جرار کو کئیروز تک پابند سلاسل رکھا گیا جہاں اس نے دیکھا کہ کئی دوسرے قیدیوں کے ساتھ صہیونیجلاد کس طرح کا مجرمانہ اور بہیمانہ سلوک کررہے ہیں۔
قابض فوج نے جرارکو21 مئی کو شمالی مغربی کنارے کے علاقے جنین میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا اور بعدمیں اعلان کیا گیا کہ وہ اس وقت ایک دھماکے میں شدید زخمی ہوگئیں۔ حالانکہ انہیںگولیاں مار کر زخمی کیا گیا تھا۔ انہیں اسی حال میں فوجی گاڑی کے اندرانسانی ڈھالبنا کر رکھا گیا۔
اس کی سنگین حالتکے باوجود قابض انتظامیہ نے اسے رہا کرنے اور اسے فلسطینی رابطہ دفتر کے حوالے کرنےسے پہلے اس کے خلاف انتظامی حراست کا حکم جاری کردیا۔ اس کی صحت کی نازک حالت اور اسکے ہوش میں نہ آنے کے باوجود ایک بار پھر اس کی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔
یورو- میڈیٹیرینینہیومن رائٹس مانیٹر نے کہا کہ قابض فوج وفا جرار کی زندگی اور حفاظت کی پوری ذمہ داریطرح ذمہ دار ہے۔ قابض فوج نے اسے گرفتار کیا اور اسے خطرناک جھڑپوں کے علاقے میں چارگھنٹے تک قید رکھا۔
انہوں نے کہا کہ اسمیں من مانی گرفتاریاں، بدسلوکی، انسانی ڈھال کے طور پر استعمال، تشدد اور طبی دیکھبھال سے محرومی جیسے سنگین اورمکروہ حربے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کی جانب سے اس کے جرائماور سنگین خلاف ورزیوں کے نتیجے میں ہونے والے مصائب اور نقصان کی ذمہ داری سے انکاربھی جرم ہی کی ایک شکل ہے۔
یورو- میڈیٹیرینیناس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ محترمہ جرار کی گرفتاری شروع سے ہی من مانی تھی، کیونکہان کی گرفتاری کو جواز فراہم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ فلسطینی مردوں اور عورتوںکے خلاف من مانی انفرادی اور اجتماعی گرفتاری مہم کے تناظر میں سامنے آئی جہاں کہیںبھی وہ پائی گئیں۔
قابض فوج نے جرارکی گرفتاری پرتشدد طریقے سے کی۔ اس کے گھر پر زبردستی دھاوا بول دیا، اس کےگھر میںموجود سامان کو تباہ کردیا اور چھاپے کے وقت گھر کے اندر موجود رقم اور طلائی زیوراتکو لوٹ لیا۔
یورو میڈ کے مطابققابض فوج نے جرار کو کسی حراستی یا تفتیشی مرکز میں منتقل کیے بغیر فوجی جیپ میں 4گھنٹے تک حراست میں رکھا، بلکہ اسے ایک خطرناک فوجی آپریشن والے علاقے میں منتقل کردیا، جہاں اس وقت فائرنگ کے تبادلے اور بارودی مواد پھینکے جانے کا مشاہدہ کیا جا رہاتھا۔
یورو میڈ کے مطابقیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قابض فوج نے جان بوجھ کر اسے اس جگہ پر رکھنے کا فیصلہکیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس سے اسے موت اور/یا مزید چوٹ لگنے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
جرار ایک مقامی کارکناور انجمن شہداء اور قیدیوں کے خاندان کے کوآرڈینیٹر ہیں۔وہ چار بچوں کی ماں ہیں۔ انکے شوہر عبدالجبار محمد احمد جرار (58 سال) کو 7 فروری 2024 سے حراست میں لیا گیا ہے۔اس کے خلاف 6 ماہ کے لیے انتظامی حراست کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ یہ ان کی پہلیگرفتاری یا قید نہیں بلکہ وہ اس سے قبلسولہ سال تک اسرائیلی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔