فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں صور باھر کی وادی الحمص کالونی میں فلسطینیوں کے 160 رہائشی فلیٹس اور مکانات ہیں۔ ان تمام فلیٹس کو حال ہی میں اسرائیلی فوج نے ایک اجتماعی انتقامی سزا کے آپریشن میں مسمار کردیا جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی بچے، خواتین اور بزرگ کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پرمجبور ہیں۔ صور باھر اور وادی حمص میں فلسطینیوں کے مکانات مسماری کا یہ پہلا واقعہ نہیں اور شاید آخری بھی نہ ہو۔ یہ ظالمانہ اور نسل پرستانہ طرز عمل برطانوی استبداد کےدور سے چلا آ رہا ہے۔ صہیونی ریاست نے اسی ظلم کو آگے بڑھایا اور ہزاروں فلسطینیوں کو نہ صرف ان کے گھروںبلکہ دیگر املاک اور قیمتی اراضی سے بھی محروم کردیا۔
برطانوی دوراستبداد سے فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری جاری ہے۔ سنہ 1936ء کے انقلاب کے دور میں برطانوی فوج نے صور بارھر، وادی الحمص اور دیگر فلسطینی مقامات میں فلسطینیوںکے دو ہزار مکانات مسمارکردیے۔
سنہ 1945ء میں برطانوی حکام نے ایک ہنگامی دفاعی فہرست مرتب کی۔اسرائیلی فوجی سربراہ کو فلسطینیوںکے مکانات کی مسماری کا پورا اختیار دے دیا گیا۔
تنظیم آزادی فلسطین کے شعبہ تعلقات عامہ کے اعداد وشمار کے مطابق سنہ 1967ء کے بعد غرب اردن ، مشرقی بیت المقدس اور غزہ میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوںکے 24 ہزار مکانات مسمار کیے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ‘بتسلیم’ کے مطابق سنہ 2006ء سے 2019ء تک 1440 مکانات مسمار کیے گئے جس کے نتیجے میں 6333 فلسطینی بے گھرہوگئے۔ ان میں تین ہزار بچے شامل ہیں۔
جبری ھجرت
فلسطین میں یہودی آباد کاری کے امور کے ماہر ڈاکٹرخلیل التفکجی نے ‘مرکزاطلاعات فلسطین’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوںکے گھروں کی مسماری کا حالیہ واقعہ کوئی نیا نہیں بلکہ سنہ 1973ء سے جاری ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب اسرائیل میں گولڈامائر کی حکومت تھی تاہم سنہ 1994ء کے بعد سے اس نسل پرستانہ طرز عمل میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
تجزیہ نگار اور عالمی قانون کے ماہر ڈاکٹر حنا عیسیٰ نے کہا کہ صہیونی ریاست نے مکانات مسماری کےلیے ایسے ایسے مکروہ حربے اور بہانے تراش رکھے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر، یہودی کالونیوں، فوجی کیمپوں اور کئی دوسرے نام نہاد منصوبوں کی آڑ میں فلسطینیوںکے گھر مسمار کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوںکے مکانات کی مسماری کے لیے ہنگامی قانون 119 کی شق الف سنہ 1945ءمیں منظور کی گئی اور اب تک جاری ہے۔
حنا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری نسلی تطہیر کی ایک بدترین شکل ہے جو سنہ 1949ء میں منظورہونے والے جنیوا قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
نئی تعمیرات پرپابندیاں
اسرائیلی فوج کے زیرانتظام سول ایڈمنسٹریشن شعبے کی طر سے غرب اردن کے سیکٹر’سی’ میں فلسطینیوں کی طرف سے گھروںکی تعمیر کے لیے 5475 درخواستیں موصول کی گئیں۔ یہ اعدادو شمارسنہ 2000ء کے ہیں۔ ان میں سےصرف چار فی صد یعنی 226 درخواستوں کی منظوری دی گئی اور باقی تمام مسترد کردی گئیں۔
اسی عرصے میں صہیونی ریاست کے سول ایڈمنسٹریشن کی طرف سے 1988ء سے 2017ء تک فلسطینیوں کے 16 ہزار 796 مکانات مسمار کرنے کا حکم دیا۔ ان میں سے 3483مکانات مسمار کرادیئے گئے جب کہ 3081 مکانات کو گرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔