فلسطینی کلببرائے امور اسیران نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج عقوبت خانوں اور جیلوں میںقید غزہ کے اسیران میں سے شہداء کی تعداد میں وقت کے ساتھ اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔کلب کا کہنا ہے کہ غزہ سے جبری طور پر اغوا کیے گئے ہزاروں فلسطینیوں کے بارے میںکسی قسم کی معلومات موجود نہیں۔ ان کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں وہ انپر ہولناک تشدد اور اذیتوں سے قیدیوں کی شہادتوں کی ہیں۔اس سے لگتا ہے کہ صہیونیغاصب فوج غزہ سے جبری اغواء کیے گئے فلسطینیوں کی تعداد ان میں سے دوران حراستتشدد سے شہید ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں معلومات کو چھپا رہا ہے۔
کلب نے ہفتے کےروز ایک بیان میں کہا کہ غزہ کے قیدیوں کا مسئلہ آج انسانی حقوق کے اداروں کے لیےسب سے بڑے چیلنج کی نمائندگی کرتا ہے، ان پر قابض دشمن کی طرف سے عائد کردہ سختاقدامات اور پابندیوں اور جبری گمشدگی کے جرم کے تناظر زیرحراست افراد کے بارے میںمعلومات کا حصول ناممکن ہے۔
انہوں نے اس باتپر زور دیا کہ وقت کا عنصر اور ایک طویل عرصہ گذر جانے کے بعد جب سے قیدیوں کو کیمپوںمیں نظربند رکھا جاتا رہا ہے، بین الاقوامی اداروں بشمول ریڈ کراس کی بین الاقوامیکمیٹی کو ان کی حراست کے حالات سے آگاہ کرنے کی اجازت نہ دینا اور قیدیوں میںشہداء کی تعداد میں اضافہ المناک ہے۔
غزہ سے 36 شہید
اسیران کلب کا یہانتباہ غزہ کی پٹی کے قیدیوں کو حراست میں لینے کے لیے نامزد کیے گئے "سدیہتیمان‘‘ کیمپ کے حوالے سےتحقیقات اور پریس رپورٹس کی حالیہ اشاعت اور قابض انتظامیہ کے آج اس اعتراف کے بعدآیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ سے گرفتار کیے گئے 36 قیدی اس کے کیمپوں میں شہیدہوگئے ہیں۔
کلب نے تصدیق کیکہ زیر حراست افراد کے خلاف قابض ریاست کے ذریعے کیے جانے والے جرائم اور مظالم کےحوالے سے تحقیقات اور بین الاقوامی پریس رپورٹس کا سلسلہ، جن میں تازہ ترین ایسوسیایٹڈ پریس کی رپورٹ ہے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں غزہ سے گرفتار کیےگئے فلسطینیوں پرہولناک تشدد کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دوران حراست قیدیوں کی شہادتوں کے واقعات میںاضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے وضاحت کیکہ یہ بڑھتے ہوئے اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب قابض دشمن غزہ کے قیدیوںاور ان کے حراستی مقامات سے متعلق تمام معلومات کو ظاہر کرنے سے انکار کر رہا ہے،جس میں ان لوگوں کی شناخت بھی شامل ہے جو اس کے کیمپوں میں شہید ہوئے تھے۔
اسیران کلب نےنشاندہی کی کہ اس کیس میں اہم ثبوت درجنوں رہا کیے گئے قیدیوں کی شہادتیں ہیں، جنہیںانسانی حقوق کے کچھ ادارے مشکل اور پیچیدہ حالات میں جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔رہائی پانے والے ان قیدیوں کی تصاویر تشدد کے جرائم کی سطح کو ظاہر کرتی ہیں۔ جن میںان کے خلاف کارروائی کی گئی تھی، جن میں اعضاء کاٹنا بھی شامل تھا۔
کلب نے خبردار کیاکہ "سدیہ تمان‘‘ کیمپ کے حالات کےبارے میں تحقیقات کھولنے کے قابض ریاست کے الزامات کے بارے میں باتوں میں اضافہ محضالزامات ہیں جو دنیا کے سامنے نسل کشی کرنے والے نظام کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
انہوں نےکہا کہ اسرائیلیعدالتی نظام قیدیوں اور زیر حراست افراد کے خلاف جاری جرائم سمیت "آج ہونےوالے تمام جرائم کو مستحکم کرنے میں ایک بنیادی ستون بنا ہوا ہے اور جاری ہے۔