حال ہی میں جب اسرائیل نے فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں وادی الحمص کے مقام پر فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کا وحشیانہ آپریشن شروع کیا تو اس پر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بہ ظاہر حوصلہ افزاء رد عمل سامنے آیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ نے وادی الحمص میں مکانات کی مسماری پراپنے ردعمل میں کہا کہ وادی الحمص اوسلو معاہدے کی تقسیم کے تحت سیکٹر’اے’ میں واقع ہے مگرآج کے بعد ہم تمام سیکٹرسسٹم کا معاہدہ ختم کرتے ہوئے پورےغرب اردن کوایک ہی سیکٹر میں تبدیل کرے گی۔
اوسلو سمجھوتے کی تقسیم کے تحت غرب اردن کے 68 فی صد علاقے پراسرائیل کا انتظامی، سول اور سیکیورٹی کنٹرول تسلیم کیا گیا ہے۔ اس علاقے پراسرائیل کا سول ایڈمنسٹریشن کا ادارہ اپنا حکم چلاتا ہے۔ صہیونی انتظامیہ ہی فلسطینیوں کو گھروں کی تعمیر کے لیے اجازت نامے جاری کرنے کی مجاز ہے۔ اس علاقے کے تمام قدرتی وسائل پر صہیونی ریاست قابض ہے اور فلسطینیوں کے لیے پابندیوں کے سوا کچھ نہیں۔
اوسلو معاہدے کے تحت ‘سیکٹر اے’ غرب اردن کی کل اراضی کا ایک فی صد ہے۔ سنہ 2002ء کے بعد اسے ‘سیکٹر’ بی میں شامل کردیا گیا۔ اس پر فلسطینی اتھارٹی کا سیکیورٹی کنٹرول ختم کردیا گیا اور اب یہ علاقہ مکمل طورپر صہیونی ریاست کے نرغےمیں ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار خلیل تفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ کے بیانات محض ہوائی ہیں جن کا زمینی حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ غرب اردن پر اسرائیلی ریاست کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے محض بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وادی الحمص میں فلسطینیوں کے مکانات کی بڑے پیمانے پرمسماری کے بعد صہیونی ریاست نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ غرب اردن کے کسی بھی مقام پر کسی بھی وقت فلسطینیوں کے گھروں کو گرانے کا آپریشن شروع کرسکتی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے خلیل تفکجی نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی غرب اردن کے سیکٹر ‘سی’ میں فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری روکنے کے لیے نہ ماضی میں کچھ کرسکی ہے اور نہ ہی آئندہ اس سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘اوسلو’ سمجھوتے سے قبل یہودی آباد کار غرب اردن کے ایک اعشاریہ 6 فی صد رقبے پرقابض تھے۔ اوسلو معاہدے سے قبل غرب اردن میں یہودی آبادکاروں کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار تھی اور آج یہ بڑھ کر 7 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ آج یہودی آباد کارغرب اردن کے 60 فی صد رقبے پر قابض ہیں۔
غرب اردن میں یہودی کالونیاں بھی کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اوسلومعاہدے سے قبل غرب اردن میں 145 اور القدس میں 15 تھیں اور آج ان کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کرچکی ہے۔
فیلڈ کا امتحان
اسرائیلی صحافیہ اور فلسطین میں یہودی آبادکاری کی مخالف دانشور عمیرہ ھس نے اخبار’ہارٹز’ میں اپنے مضمون میں لکھا کہ ‘ اب چونکہ حقائق واضح ہوچکےہیں۔ اس لیے فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ کو اپنے نعروں کو عملی شکل دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کھوکھلنے نعروں سے کام نہیں چلتا۔ اب فیلڈ میں عملی کام کا امتحان شروع ہو رہا ہے’۔
انہوں نے مزید لکھا کہ پہلی فرصت میں فلسطینی اتھارٹی کےسربراہ محمود عباس کو چاہیے کہ وہ ہزاروں فلسطینی سیکیورٹی اہلکاروں کو شہروں اور دیہاتوں سے باہر نکال کر غیرمسلح کریں، تمام اہلکار وردی اتار دیں اور اسرائیلیوں کو خون خرابے سے روکنے کے لیے ان کے احکامات تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔
اسرائیلی صحافیہ کا کہناہے کہ محمود عباس اور محمد اشتیہ کے حکم سے چرواہے، کسان اور مزدور سب مل کر فلسطینی علاقوں کو پانی پایپ لائنوں، اسکولوں اورزرعی اراضی، درختوں اور سڑکوں کے ذریعے باہم مربوط کریں۔ غرب اردن میں اپنی مرضی کے مطابق تعمیرات شروع کریں۔ پرانےالخلیل شہر میں اپنی سرگرمیاں بڑھائیں، مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کریں، تل الرمیدہ کے محصورین کے ساتھ ربط بڑھائیں اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کوششیں تیز کریں۔
فلسطینی اتھارٹی کے کھوکھلے نعرے
مقامی فلسطینی شہریوں نے صدر عباس اور وزیراعظم محمد اشتیہ کے بیانات پرمایوسی کا اظہار کیاہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ رام اللہ اتھارٹی صرف زبانی کلامی نعروں تک محدود ہے اور وہ عملی میدان میں کچھ کرنےسے قاصر ہے۔
ایک مقامی شہری خالد مخامرہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غرب اردن میں فلسطینیوں کےگھروں کی مسماری روز کا معمول بن چکی ہے مگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے شہریوں کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی وادی المالح کے فلسطینیوں کو سستا پانی تک فراہم نہیں کرسکی۔ ہمیں 30 شیکل میں پانی کا ایک گیلن خریدنا پڑتا ہے جو کہ اصل قیمت سے سات گنا زیادہ ہے۔
دیگر فلسطینی شہریوں کا بھی کہنا ہے کہ ‘سیکٹر سی’ میں فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری روکنے کا فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ اسرائیلی فوج اور پولیس روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کی املاک کو نقصان پہنچاتی ہے مگر فلسطینی اتھارٹی صرف کھوکھلےنعروں تک محدود ہے۔