انسانی حقوق گروپ’یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آبزرویٹری‘ نے کہا ہے کہ کہ اس کی ٹیموں نے اسرائیلیقابض فوج کی جانب سے براہ راست فائرنگ اور چھوٹے ڈرونز سے دھماکہ خیز بم گرانے کےذریعے قتل کے واقعات میں نمایاں اضافہ کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ان چھوٹے ڈرونزکو جنہیں مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا گیا کو "کواڈ کاپٹرز” کہا جاتاہے۔
آبزرویٹری فار ہیومنرائٹس نے ایک بیان میں کہا کہ قابض فوج نے ڈرونز کو انٹیلی جنس ایئر فورس میں تبدیلکر دیا اور پھر ماورائے قانون اور ماورائے عدالت قتل و غارت گری کا ذریعہ بنا دیا۔
انہوں نے وضاحت کیکہ ان کی فیلڈ ٹیموں نے قابض افواج کی جانب سے سفید جھنڈے لہرانے والے شہریوں کو بموںسے نشانہ بنانے کے واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔ ان میں جبالیہ کیمپ سے تعلق رکھنے والی 52 سالہ صالح محمداحمد عودہ شامل ہیں جنہیں کواڈ کاپٹر طیارے سے براہ راست بمباری کرکے شہید کیا گیاحالانکہ وہ سفید جھنڈا اٹھائے ہوئے تھی۔
ان کا خیال ہے قابضفوج ان ڈرونز کو فلسطینیوں کو ڈرانے، انکے درمیان دہشت پھیلانے اور فضائی حدود میں مسلسل موجودگی کے علاوہ خوفناک آوازیںجاری کرکے، فوجیوں کے احکامات جاری کرکے ان کی نفسیاتی صحت کو منفی طور پر متاثرکرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
آبزرویٹری فار ہیومنرائٹس نے اس بات پر زور دیا کہ ڈرونز کو بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کیطرح غیر قانونی ہتھیار نہیں سمجھا جاتا، لیکن ان کا استعمال مسلح تنازعات کے تناظرمیں لاگو ہونے والے بین الاقوامی انسانی قانون کے قواعد کے مطابق ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ گذشتہ7 اکتوبر سے "اسرائیلی” قابض افواج غزہ کی پٹی پر تباہ کن جنگ کیے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں دسیوں ہزار معصومشہری شہید، زخمی اور لاپتہ ہونے کے علاوہ 20 لاکھ افراد بے گھرہوچکے ہیں۔ بنیادی ڈھانچےکا 70 فیصد سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے اور غزہ کی سخت ناکہ بندی اور مسلسل جنگ کےنتیجے میں گنجان آباد علاقہ قحط کی لپیٹ میں ہے۔ ادویات، پانی اور خوراک کی قلتکے باعث آئے روز بچوں اور دیگرشہریوں کی اموات کی خبریں آ رہی ہیں۔ دوسری جانبغاصب صہیونی دشمن ریاست نے جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام بنا دی ہیں اور وہ غزہمیں فلسطینیوں کی منظم اور مسلسل نسل کشی پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہے۔