تیونس کے معزول صدر زین العابدین بن علی سعودی عرب میں طویل علالت کے بعد وفات پاگئے ہیں۔ان کی عمر تراسی سال تھی۔تیونس کی وزارت خارجہ نے ان کی موت کی تصدیق کردی ہے۔
اس سے پہلے تیونسی میڈیا نے غیر تیونسی ذرائع سے جمعرات کو ان کے انتقال کی خبر دی تھی اور ان کے وکیل نے فیس بُک پر اپنے صفحے پر ایک پوسٹ میں ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔
ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ بن علی ایک عرصے سے پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔ وہ 2004ء میں اس مرض کا شکار ہوئے تھے۔انھیں ایک ماہ قبل حالت بگڑنے کے بعد جدہ میں ایک اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا اور وہیں ان کا انتقال ہوا ہے۔
اس ذریعے نے العربیہ انگلش کو بتایا کہ تیونس کے سابق صدر گذشتہ تین ہفتے سے کومے کی حالت میں تھے۔مئی میں ان کی صحت کی حالت بگڑنا شروع ہوگئی تھی۔
زین العابدین بن علی جنوری 2011ء کے اوائل میں اپنی حکومت کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے بعد تیونس سے راہِ فرار اختیار کرکے سعودی عرب چلے گئے تھے اور وہ تب سے ساحلی شہر جدہ میں مقیم تھے۔
واضح رہے کہ تیونس میں سب سے پہلےعرب بہاریہ انقلاب برپا ہوا تھا اور پھر تبدیلی کی یہ لہر مشرقِ اوسط اور شمالی افریقا کے دوسرے ممالک تک پھیل گئی تھی۔ بن علی 23 سال تک ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے تھے۔وہ ملک کے سابق سکیورٹی سربراہ رہے تھے۔
انھوں نے 1987ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تھا۔ انھوں نے تب تیونس کے تاحیات صدر حبیب بو رقیبہ کو طبی طور پر اقتدار کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا اور پھر ملک کے صدر بن گئے تھے۔انھوں نے ملک میں معاشی ترقی کے لیے اصلاحات متعارف کرائی تھیں لیکن ان کے نتیجے میں بدعنوانیوں اور عدم مساوات کو بھی فروغ ملا اور ان کے قریبی عزیز واقارب پر مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات عاید کیے گئے تھے۔
بن علی تیونس کے بانی صدر حبیب بو رقیبہ کے دورِ حکومت میں سکیورٹی اداروں کے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ انھیں 1964ء میں ملٹری سکیورٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور 1977ء میں نیشنل سکیورٹی کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔
وہ پولینڈ میں تین سال تک تیونس کے سفیر بھی تعینات رہے تھے لیکن انھیں 1984ء میں دوبارہ سکیورٹی کی ذمے داریاں انجام دینے کے لیے وطن واپس بلا لیا گیا تھا اور حکومت نےانھیں جنرل کے عہدے پر فائز کرکے روٹی کی قیمت میں اضافے کے خلاف برپا احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کی ذمے داری سونپی تھی۔
بن علی کو صدر حبیب بو رقیبہ کی حکومت میں 1986ء میں وزیر داخلہ اور ایک سال کے بعد وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔انھوں نے اپنے اقتدار کے پہلے عشرے کے دوران میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بنک کے تعاون سے وسیع پیمانے پر اقتصادی اصلاحات متعارف کرائی تھیں جن کے نتیجے میں تیونسی معیشت کی سالانہ شرح نمو چار فی صد سے زیادہ ہوگئی تھی۔
مگر ان کے اقتدار کے بعد کے برسوں میں عام لوگوں کی معاشی حالت پتلی ہوتی چلی گئی تھی اور دسمبر2010ء میں عوام نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کردیے تھے۔اسی عوامی احتجاجی تحریک نے ان کی مطلق العنان حکمرانی کا خاتمہ کردیا تھا اور انھیں ملک میں کہیں جائے پناہ بھی نہیں ملی تھی۔