جمعه 09/می/2025

فاتن اسماعیل فلسطینیوں کے حقوق کی مستقل ترجمان!

اتوار 29-ستمبر-2019

فاتن اسماعیل فلسطین میں ایک جانا پہچانا نام ہے جو گذشتہ چھ سال سے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی اسیران کے لیے ہونے والی ہرسرگرمی اور غزہ میں جاری حق واپسی مارچ میں پیش پیش ہے۔

قابض اسرائیل کی جیلوں میں قیدیوں کی تکلیف کے بارے میں میڈیا میں آنے والی خبروں سے متاثر ہونے والی فاتن اسماعیل نے اپنے خرچ پر ان کی تصاویر پرنٹ کرنے کی شروعات کی۔ انہوں نے دنیا کو یہ بتانا شروع کیا کہ صہیونی زندانوں میں فلسطینی اسیران پر کس طرح مظالم ڈھائے جاتے ہیں مگر صہیونی ریاست ان جرائم سے انکاری ہے۔

فاتن اسماعیل بچوں کے اسکول میں کام کرتا ہے۔غزہ میں جاری حق واپسی مارچ  میں وہ بیمار قیدیوں کی تصویروں کے ساتھ مستقل طور پر موجود رہتی ہے۔

دو دن پہلےمقبوضہ بیت المقدس کے العیزریہ سے تعلق رکھنے والے ایمن حمیدہ فاتن کو منگنی کا پیغام بھیجا۔ ایمن اس وقت اسرائیل کی جزیرہ نما النقب کی جیل میں قید ہے۔

قیدیوں کا چیمبر

فاتن اسماعیل کی منگنی کی پروقار تقریب غزہ میں المغازی پناہ گزین کیمپ میں ہوئی جس میں اس کے کیمپ میں رہنے والے شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

فتن قیدیوں کی طرف سے فراہم کردہ متعدد کتابیں اور دستکاری کو بطور تحفہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔اسیران اپنے دکھوں پراظہار یکجہتی کرنے پروہ فاتن اسماعیل سے اظہار تشکرکرتے ہیں۔

فاتن کا کہنا ہے کہ  میں نے اکیلے ہی ہفتہ وار ریڈ کراس دفتر کے سامنے  ہونے والے دھرنے میں شرکت کی اور اسیران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کا آغاز کیا۔ ہمیں اسیران کے ساتھ اس لیے بھی یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ اسیران نے ہمارے لیے اپنی عمروں کی قربانی دی ہے۔

فاتن نے قومی دھڑوں ، اداروں اور مقبول تقریبات سے قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی سرگرمیوں اور مہمات میں  تیزی لانے پر زور دیا۔

فاتن نے حال ہی میں بھوک ہڑتال سے دوچار قیدیوں کی تصاویر رکھی ہیں ، خاص طور پر طارق قعدان ، احمد غنیم ، بیمار قیدی اسراء جعابیص اور دیگر اسیران کی تصاویر کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کی۔

اس کا کہنا ہے کہ "میرا یکجہتی کا پیغام یہ ہے کہ جیلوں میں لگائے گئے مضر صحت جیمرز کو فوری طورپر ہٹایا جائے۔ قیدیوں کی روز مرہ زندگی کو بہتر بنایا جائے اور انہیں اپنے اہل خانہ سے رابطے کے لیے ٹیلیفون کی سہولت مہیا کی جائے۔

 
قیدی کی منگیتر

مارچ 2018ء سے جاری حق واپسی کے مارچ میں  فاتن فلسطینی قیدیوں کی تصاویر بلند کرنے والی پہلی دو شیزہ ہیں۔اس نے مریض اسیرہ اسراء جعابیص کی حالت زار کو زیادہ سے زیادی اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

فاتن حق واپسی مارچ میں تین بار زخمی ہوئی مگر اس کے باوجود البریج کیمپ میں ہونے والے مظاہروں میں اسے مستقل طورپر پیش پیش دیکھا گیا۔

فاتن کو اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کی طرف سے متعدد فونز موصول ہوئے جنہوں نے اس کے مقصد کی حمایت میں ان کے انفرادی موقف کا شکریہ ادا کیا گیا۔ رابطہ کرنے والے اسیران میں عزیز عویسات، ایمن حمیدہ، ابراہیم بیادسہ ، ایوب ابو کریم اور دیگر شامل ہیں۔

کچھ ہفتے قبل قیدی ایمن حمیدہ نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ وہ غزہ میں المغازی کیمپ کی رہائشی فاتن اسماعیل سے اس کا رشتہ مانگیں۔ فاتن اسماعیل کو پروپوز کرنے کے بعد ایمن کے اہل خانہ نے فاتن کے اہل خانہ سے رابطہ کیا چنانچہ رشتہ طے ہوگیا اور حال ہی میں منگنی بھی ہوگئی۔

اسماعیل نے قیدی ایمن حمیدہ کی ذاتی تصویر اپنے پاس رکھی ہے۔ ایمن حمیدہ جلد ہی رہائی کے بعد غزہ آئے گا جہاں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجائیں گے۔

فاتن کا کہنا ہے کہ ایک بہت ہی محب وطن اور حسن اخلاق والے شخص سے نسبت ہوئی ہے۔ اسے کئی برس گرفتار کیا گیا تھا اورمُجھے امید ہے کہ جیل کی پابندیاں توڑنے کے بعد جلد ہی  ہم اکٹھے ہوجائیں گے۔

فاتن نے مقبوضہ اندرون فلسطین، غزہ  اور مغربی کنارے کے قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی سرگرمیوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ  اسیران کا مسئلہ صرف موسمی طور پر میڈیا کی توجہ کا مرکز نہیں ہونا چاہیئے۔

مختصر لنک:

کاپی