اپنے ایک چھوٹے سے گھر میں خاکوں اور پینٹنگز پر خوشیوں اور امیدوں کا رنگ بکھیرتے ہوئےاپنی فن کارانہ مہارت کا ثبوت دینے والا ایک فلسطینی نوجوان آرٹسٹ اس وقت نہ صرف فلسطین بلکہ بیرون ملک بھی اپنی مہارت کا لوہا منوا رہا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں 23 سالہ ذکریا درغام کے فن اور اس کے حالات وخیالات پر روشنی ڈالی ہے۔
درغام فلسطین کا ایک ابھرتا ہوا آرٹسٹ ہے مگر اس نے کم عمری میں اپنی فنی مہارت کا لوہا منوا لیا۔ اس کی تیار کردہ پینٹنگز اور خاکوں میں امید کی روشنی اور خوشی کی کرن جھلکتی ہے اور وہ اپنے دست ہنر سے مایوسی کے بادلوں کو امید کے روشن اور تابناک دن میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی پینٹنگز میں خواتین، سماج اورزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور ان کے مسائل کی ترجمانی کرتی ہیں۔
آرٹ کی دنیا میں درغام کا استاد اس کے والد شحدہ درغام ہیں جو خود بھی تشکیلی آرٹ کے ماہر ہیں۔ اس نے مڈل اسکول میں پینٹنگ کا آغاز کیا اور جب وہ سیکنڈری اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچا تو فلسطین میں پینٹنگز کے ساتھ آرٹ نمائشوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔
رنگوں کا آرٹسٹ
زکریا درغام تجریدی اسکول سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اپنے ناظرین کو اپنے فنکارانہ مشن کو سمجھنے کے لیے اپنی تیار کردہ پینٹنگز اور رنگوں کی لطافتوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ’غزہ کےعوام کو درپیش مشکلات کے باوجود میں غزہ کی پٹی میں اپنے آس پاس کے سمندر سے بہت متاثر ہوا۔ یہاں پرہمہ نوع تخلیقی نظریات اور فنی مہارتیں موجود ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی کئی پینٹنگز حال ہی میں کینسر کے مریضوں میں تقسیم کیں۔
زکریا کے نجی کمرے میں بڑی تعداد میں پینٹنگز موجود ہیں جس میں انہوں نے برسوں پہلے سے اپنی تخلیقات جمع کی ہیں۔ ان سب میں خوشی اور امید کے لیے عوامی آواز کی ترجمانی کی گئی ہے۔
زکریا درغام نے کھڑی کے نیچے پڑی اپنی ایک پینٹنگ کو پکڑتے ہوئے یہ دو لڑکیوں کے ڈانس کرنے والی پینٹنگ ہے۔ یہ رنگین بیلے ڈانسر کی ایک اور پینٹنگ ہے۔
مکان کے باغیچے میں زکریا نے انٹرویو کے دوران پینٹنگز دکھائیں۔ ان میں سب سے اہم سنگترےکے پھلوں کا مجسمہ ہے جس کے لیے فلسطین مشہور ہے۔
درغام کو ابھی بھی اپنی پرانی پینٹنگ یاد ہے جو فلسطین کے زیر قبضہ ہونے سے قبل فلسطینی فطرت کی کہانی کو مجسم بنانے کے لیے تیار کی گئی اور اس کی تیاری میں انہیں کافی وقت لگا۔
اس نے بتایا کہ غزہ میں جنگوں کے باوجود بھی لوگوں میں امید موجود ہے۔ سنہ 2008ء کی جنگ کے بعد کئی دوسری جنگوں کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ اس کے متاثرین کی داد رسی کی۔
آرٹسٹ درغام کے تصور کو جس چیز نے اپنی گرفت میں لیا وہ ہے زندگی کی تفصیلات اور روشن رنگوں میں امید۔ وہ ہمیشہ مثبت سوچ کے ساتھ مثبت افراد کے ساتھ مل زندگی گذارنے پریقین رکھتا ہے۔
معلق باغات
درغام نے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد طلباء کو پڑھانے کی کوشش کی لیکن اس نے اپنے نئے منصوبے کے اندر آرٹ ورک کے لیے بھی اچھا خاصا وقت نکال لیا۔
زکریا انٹرویو کرنے والی ٹیم کو آرٹ پروجیکٹ میں لے گئے،جو اپنے گھر سے محض چند گز کے فاصلے پر ہے۔ جہاں اس نے چند ہفتہ قبل پانچ دیگر ڈیزائنرز ، انجینئروں اور کاریگروں کے ساتھ نیا پروجیکٹ کھولا۔
زکریا نے کہا کہ چھ ماہ پہلے مجھے کم قیمت پر ہر گھر میں خوبصورتی لانے کے لیے باغیچوں کی پینٹنگزبنانے کا خیال آیا ۔ ہم صنعتی فضلہ سے سنگ مرمر اور لکڑی کے سانچے تیار کیے ہیں اور دیگر کیمیکلز کو ملاکر اس پرکام شروع کردیا۔
آرٹ فیکٹری کی مصنوعات فطرت اور پرندوں سے متاثر چیزوں اور اشیاء کی عکاسی کرتی ہیں ، جبکہ دیگر سیرامک برتن دنیا کے دوسرے نوجوانوں کی طرح فلسطینی نوجوان قیدیوں کے حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔
سنگ مرمر کے سانچوں کو کمپیوٹر کے ذریعہ گھنٹوں تیاری اور مختلف شکل کے ڈیزائنزکے مطابق تیار کیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارا اصل مقصد غزہ کے نوجوانوں میں زندگی کی امید اور مستقبل کے لیے امیدوں کو عام کرنا ہے۔