پنج شنبه 01/می/2025

فلسطینی اسیر”الطوس” کےاسرائیلی زندانوں میں گذرے 35 سال

پیر 7-اکتوبر-2019

قابض صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینیوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو تین دہائیوں سے قیدو بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔

قابض اسرائیلی جیلوں میں قیدی محمد الطوس کی عمر60 سال ہوگی اور وہ مسسل 35 سال سے صہیونی زدانوں میں قید ہیں۔

باہمت فلسطینی الطوس نے 35 سال صہیونی زندانوں میں گذار دیے مگراسے دشمن کے خلاف جدو جہد پر ذرا بھی افسوس نہیں بلکہ اس کا کہناہے کہ میرے لیے یہ بات باعث فخرہے کہ میں اپنی قوم اور ملک کے لیے دشمن کی قید میں طویل عرصے سے پابند سلاسل ہوں۔

اُنہوں نے اہل خانہ کو لکھے گئے ایک مکتوب لکھا کہ”مجھے وطن کے لیے  اپنی جان کی قربانی بھی دینا پڑے تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ جیل میں طویل قید میرے لیے باعث افسوس نہیں اعزاز کا باعث ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میں جلد دشمن کی قید سے آزادی حاصل کرلوں گا۔ اگر دشمن کی قید میں موت بھی آئی تو یہ میری شہادت ہوگی اور مجھے اس پر بھی فخر ہے۔

محمد الطوس نے مزید کہا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ میری رہائی اب قریب ہے اور میں بہت پر امید ہوں ، ان تمام چیزوں کے ساتھ جو میں نے اپنی حراست اور بدسلوکی کے برسوں میں برداشت کیا ہے مجھے کوئی پریشانی یا دکھ نہیں۔

اپنے خط میں  فلسطینی قیدی نے اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ جب مجھے حراست میں لیا گیا میرے بیٹے شادی کی عمر تین اور بیٹی فداء کی ڈیڑھ سال تھی ۔ میرا دوسرا بیٹا اس وقت گھر سے باہر تھا اور اسے اسرائیلی فوج نے پکڑنے کے لیے تعاقب شروع کررکھا تھا۔ اس کے ساتھ جیل میں آنے کے بعد ملاقات ہوئی۔

پوتے پوتیوں کے حالات

اگرچہ محمد الطموس  کا کہنا ہے کہ میں دوسرے دادا دادی کی طرح اپنے آٹھ پوتے پوتیوں کے ساتھ نہیں رہ  پایا مگر میری اپنے پوتوں اور پوتیوں کے ساتھ  فون پر بات ہوتی رہتی ہے۔ مجھے یہ افسوس ہے کہ میں آج تک اپنے پوتوں اور پوتیوں اور نواسے نواسیوں کونہیں دیکھ سکا۔ انہوں نے اپنے پوتوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ملاقات سے محروم رکھنے پر دشمن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ اپنے فون کالوں کے ذریعے دادا کو ان کی زندگی کی تفصیلات معلوم ہیں ۔وہ اپنے والد سے شکایت کرتے ہیں اوران میں سے کچھ نے اسے فوری طور پردادا کو گھرلانے کے لیے کہا تاکہ وہ اس سے ملیں اس کے ساتھ کھیلیں۔البتہ جو بڑے اور ہوشہار ہیں وہ حقیقت سے آگاہ ہوگئے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے والدین سے شکایت نہیں کرتے کہ وہ دادا کو گھر لے کرآئیں۔

گرفتاری اور موت سے نجات

قیدیوں کے امور کے ماہر عبد الناصر فروانا نے بتایا کہ  محمد الطوس المعروف ابو شادی غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کے جعبہ قصبے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے  6 اکتوبر 1985 کو اسرائیلی غاصبانہ فوج کے حملے کے بعد اسے ڈرامائی  طورپر فرار ہونے کی کوشش کے دوران حراست میں لیا گیا بعد گرفتار کیا گیا تھا۔  جبل الخلیل میں اسرائیلی فوج نے محمد الطوس اور اس کے ساتھیوں کو موٹرسائیکل پر جا رہے تھے تو قابض فوج نے انہیں دستی بموں اور گولیوں سے نشانہ بنایا تاہم اس کارروائی میں الطوس معجزانہ طورپر بچ گئے مگر انہیں بعد ازاں حراست میں لے لیا گیا تھا۔

اس آپریشن میں الطوس کو متعدد گولیاں لگیں جس کے نتیجے میں اس کےجسم سے خون بہہ نکلا۔ شدید زخمی ہونے کے باوجود قابض صہیونی فوج نے اس کی طبی حالت اور سنگین چوٹ کونظرانداز کرتے ہوئے سخت مارا پیٹا اور پھر اسے تفتیشی سیل  میں منتقل کردیا۔ اسے دوران حراست مسلسل تین ماہ تک تشدد اور اذیتوں کا نشانہ بنایاجاتا رہا۔ اس پر تحریک فتح  کے ساتھ تعلق اور قابض ریاست کے خلاف مزاحمت، ایک مسلح گروپ کے ساتھ وابستگی اور گوریلا کارروائیوں میں حصہ لینے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ انہی الزمات کے تحت اسرائیلی فوجی عدالت نے اسے کئی بار عمر قید کی سزا سنائی۔

فروانا نے نشاندہی کی کہ اس قابض دشمن نے گرفتاری کے بعد اس کے گھر کو منہدم کردیا اور اس کے کنبہ کے افراد کو اجتماعی سزا دی گئی۔ وہ طویل قید کے دوران کئی قید خانوں کے مابین منتقل ہوچکا ہے۔ اس نے تمام بھوک ہڑتالوں میں حصہ لیا ہے۔

فرونا نے بتایا کہ اکتوبر 2011 میں معاہدہ "شالیت” کی تکمیل کے بعد ان کی اہلیہ حاجا (والدہ شادی) کو فالج کا سامنا کرنا پڑا تھا ، وہ رہائی پانے والوں کی فہرست میں اپنے شوہر کا نام شامل کرنے میں ناکامی پر دکھی تھیں۔

ام شادی کی صحت کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔سنہ  2014ء کے اوائل میں سابق اسیران کے چوتھے گروپ کو رہا کیا مگر قابض دشمن نے الطوس کی رہائی سے انکار کردیا۔

مختصر لنک:

کاپی