حال ہی فلسطینی الیکشن کمیشن کے چیئرمین حنا ناصر نے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کا دورہ کیا۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے امیدافزا گفتگو کی۔ فلسطینی دھڑوں بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ حنا ناصرکا بیان امید افزا اور خوش کن ہے مگر کیا فلسطین میں انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جاسکیں گی؟
یہ درست ہے کہ فلسطینی الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے حوالے سے نیک نیتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی دھڑوں میں اختلافات کے خاتمے کے لیے انتخابات کردار ادا کرسکیں گے؟ اور کیا الیکشن کے ذریعے فلسطینی سیاسی نظام میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کیا جاسکے گا۔ کیا فلسطینی دھڑوں میں پیدا ہونے والے اختلات کے تباہ کن اثرات اور نتائج کو زائل کیا جاسکے گا؟۔
حال ہی میں الیکشن کمیشن کے چیئرمین حنا ناصر نے غزہ کے دورے کے دوران فلسطینی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقات کی۔ فلسطین کی بیشتر جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے جو اس امرکا واضح اظہار ہے کہ فلسطین میں سیاسی تبدیلی اور نئی سیاسی قیادت کے چنائو کے حوالےسے حالات ساز گار ہیں اور تمام جماعتیں انتخابی اور جمہوری عمل میں حصہ لینے لیے پرعزم ہیں۔
چند ہفتے پیشتر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلا سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ وطن واپسی پر صدارتی، پارلیمانی اور جنرل کونسل کے انتخابات کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔
سیاسی مستقبل
فلسطینی دھڑوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات پھوڑوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ کیا انتخابات ان پھوڑوں سے فلسطینی سیاسی نظام کو شفا یاب کرسکیں گے؟ کیونکہ 12 سال سے فلسطینی اپنی الگ الگ پوزیشنوں میں چل رہےہیں۔ سوال یہ ہے کہ انتخابات کے بعد سیاسی پروگرام فلسطینی سیاست کی گاڑی ایک ہی سمت میں چلے گی یا ایک بار پھرالگ الگ سمتوں میں فلسطینی سیاسی گاڑی چلے گی۔
حماس سمیت دیگرفلسطینی دھڑوں نے صدارتی انتخابات کے تین ماہ کے بعد پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین نیشنل کونسل کے انتخابات کے حوالے سے بھی فلسطینی دھڑوں میں اتفاق رائے موجود ہے اور اس حوالے سے فلسطینیوں میں حسن نیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ نگار طلال ابو ظریفہ جو فلسطینی ڈیموکریٹک فرنٹ کے رکن ہیں کا کہنا ہے کہ فلسطینی دھروں کا انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے اہم پیش رفت ہے اور یہ فلسطینی نظام ، جمہوریت کے فروغ اورملک کو درپیش سیاسی بحرانوں کے حل کے لیے قومی شراکت کا بہترین موقع ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین میں انتخابات کو کامیاب بنانے کے طریقہ کار پرسنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ یہ صدر محمود عباس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر تمام سیاسی دھڑوں کو انتخابات کے قانون، طریقہ کار اور انعقاد کے حوالے سے اعتماد میں لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کا موجودہ سیاسی نظام اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہے اور فلسطینی سیاسی دھڑے الگ الگ سمتوں میں جا رہےہیں۔ فلسطین کی صورت حال کو علاقائی اور عالمی سطح پرہونے والی پیش رفتوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
تجزیہ نگار اور سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر احمد رفیق عوض نے کہا کہ اگرتمام فلسطینی سیاسی قوتیں انتخابات کےانعقاد پرمتفق نہیں ہوتیں تو اس سے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے ایک ہی وقت میں پارلیمانی، صدارتی اور نیشنل کونسل کے انتخابات کے نظریے سے اتفاق نہیں کیا۔ تاہم انتخابی عمل کے حوالے سے حماس نے مکمل آمادی کا اظہار کیا ہے اور یہ خوش آئند ہے۔
توقعات اور مشکلات
فلسطین کے سیاسی منظر نامے پرقابض اسرئیلی ریاست کی گہری نظر رہتی ہے۔ فلسطینی دھڑوں میں اختلافات اسرائیل کے مفاد میں ہیں۔ اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد کا کوئی موقع پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔
موجودہ حالات میں قضیہ فلسطین کو صہیونی دشمن کی طرف سے بدترین سازشوں کا سامنا ہے۔ صہیونی ریاست فلسطینیوں کے حقوق کی مسلسل نفی کر رہی ہے۔ فلسطین ۔ اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں فلسطین کے سیاسی نظام کی اصلاح اور اس کے تمام اداروں کی بحالی وقت کی ضرورت ہے۔
ابو ظریقہ کا کہنا ہے کہ فلسطین میں ایک ہی وقت میں جامع انتخابات کا انعقاد مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ فلسطینی دھڑے اس پر متفق نہیں ہوں گے تاہم یہ کام مرحلہ وار ہوسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عوض نے کہا کہ فلسطین میں انتخابات کے انعقاد کی راہ میں اسرائیل رکاوٹیں کھڑی کرسکتا ہے۔ ماضی میں ہم یہ خیال کرتے تھے کہ فلسطین میں انتخابات قومی وحدت کا ذریعہ ثابت ہوں گے مگر ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات فلسطینی دھڑوں میں مزید اختلافات اور بحران کوگھمبیرکرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔
فلسطین میں حماس اور تحریک فتح دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں مگر دونوں کا نقطہ نظر اور الگ الگ سیاسی ویژن پر چل رہی ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگاراور دانشورمحمد مصلح کا کہنا ہے کہ فلسطین کی جغرافیائی صورت حال انتخابات کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فلسطین کی صورت حال کو عرب ممالک اور عالمی منظرنامے سے الگ نہیں کرسکتے۔