قارئین کرام اگرآپ تصور کریں کہ کوئی شخص انتہائی مشکل اور نا مساعد حالات میں زندگی کے مسلسل 29 سال دشمن کی قید میں گذار دے دراں حالیکہ وہ اپنے عزیزواقارب کو بھی نہ دیکھ سکے۔ دوسری طرف دشمن قیدی کی رہائی کے بجائے اور اس کی موت کے لیے حالات سازگار بناتے ہوں تو ایسے قیدی کی زندگی کیسے گذرتی ہوگی۔
یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ اسرائیلی زندانوں میں ایسے کئی قیدی ہیں جو زندی کی تین تین عشرے اور اس سے بھی زاید عرصے سے صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ انہی میں 29 سال سے عمرقید کی سزا پانے والے عبدالناصر عیسیٰ صبر استقامت کا پہاڑ ہیں۔ وہ صہیونی دشمن کی زندانوں میں قید خانے کی سلاخوں کے ساتھ مزاحمت کرتے ہوئے 29 سال کا عرصہ عقوبت خانوں میں گذار چکے ہیں مگر رہائی اور اپنے اقارب کے ساتھ جا ملنے کی امید انہیں اب بھی پرامید رکھے ہوئے ہے۔
مزاحمت کی وارث نسلیں
مجاھد عبدالناصر عیسیٰ یکم اکتوبر 1968ء کو غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1969ء میں صہیونی فوج نے ان کا مکان مسمار کردیا جس کے نتیجے میں ان کا خاندان نابلس میں بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں سکونت پذیرہو گیا۔ اسرائیلی فوج نے اس کے والد ابو شاکر کو حراست میں لے لیا اور اسے سات سال قید کی سزا سنائی۔
عبدالناصر نے اپنی زندگی کے اوائل ہی میں اسرائیلی ریاست کے مظالم کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ سنہ 1976ء میں فلسطین میں یوم الارض کے موقع پرعبدالناصر اور اس کی ہمشیرہ بھی احتجاجی ریلی میں شریک تھیں۔ قابض فوج نے گولیاں مار کر اس کی ہمشیرہ کو زخمی کردیا۔
ستمبر 1982ء کو عبدالناصر نے ایک ریلی میں شرکت کی تو صہیونی فوج نے اس پر براہ راست گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں اس کی ران میں گولی لگی اور وہ شدید زخمی ہوگئے۔
اسی سال قابض صہیونی فوج نے اس کے والد کو اسے نابلس کے نواحی علاقے میں قائم ایک اسکول میں داخل کرنے پرمجبور کیا۔ سنہ 1983ء میں وہ انہوں نے اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کرلی۔ بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں انہوں نے شہید جمال منصور کے ہاتھ پر بیعت کی۔
پہلی گرفتاری
سنہ 1986ء کو عبدالناصر عیسیٰ کو پہلی بار اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا۔ اس پر اسرائیل کے خلاف نفرت پھیلانے والا لٹریچر تقسیم کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ اسے فلسطینی رہ نما جمال منصور کے ساتھ الاسطبل کے نام سے مشہور الفارعہ نامی بدنام زمانہ حراستی مرکز میں قید کیا گیا۔
سنہ 1988ء کو اسرائیلی نے عبدالناصرعیسیٰ کو دوسری بار حراست میں لیا۔ اس وقت اس کی گرفتاری بلاطہ کیمپ سے عمل میں لائی گئی۔ گرفتاری کے وقت اور اس کے بعد صہیونی فوج کی طرف سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مکان کی مسماری
قابض فوج نے عبدالناصر عیسیٰ کی گرفتاری کے بعد ان کا مکان بھی مسمار کردیا۔ قابض فوج نے ایک دوسرے رہ نما یوسف کعبی کا مکان بھی مسمار کردیا گیا۔
سنہ 1988ء میں عبدالناصر کو دوران قید انواع واقسام کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے جنین اور نابلس میں اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کا نیٹ ورک قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کے بھائیوں نے اور کئی دوسرے اقارب نے بھی حماس میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے حماس اور جماعت کے جہادی پیغام کو عام کرنے کی کوششیں جاری رکھیں، یہاں تک کہ 1990ء میں انہوں نے نابلس میں قائم جیل میں بھی جماعت کے کارکنوں کو منظم کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
19 اگست 1995ء کو صہیونی فوج نے انہیں ایک بار پھر حراست میں لیا۔ ان پر حماس سے تعلق اور اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں مقدمہ چلایا گیا اور صہیونی عدالت نے انہیں تا حیات عمر قید کی سزا سنائی۔ وہ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اب تک صہیونی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔ جہاد ، صبرو استقامت اور عزیمت کا سفر صہیونی زندان میں بھی جاری ہے۔