جمعه 15/نوامبر/2024

مجرم صہیونیوں نے صحافی کی آنکھ میں گولی کیوں ماری؟

پیر 18-نومبر-2019

معاذ العمارنہ ایک فلسطینی صحافی اور فوٹو گرافر ہے۔ اس کا مشن فلسطینی قوم پر اسرائیلی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنا اور اپنے کیمرے کی مدد سے دنیا کو صہیونی جرائم سے آگاہ کرنا ہے۔ اس کا یہ مشن اور مقصد صہیونی دشمن کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ کوئی فلسطینی جب بھی میدان عمل میں اتر کرصہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے یا ان کے جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرتا ہے تو صہیونی دشمن اس کا تعاقب شروع کردیتی ہے۔

عمارنہ کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے قابض صہیونی ریاست کے جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنے پیشہ وارانہ امور انجام دیتے ہوئے کیمرے کا استعمال کیا۔

غرب اردن میں ایک احتجاجی ریلی کے دوران جب قابض فوجیوں نے پرامن اور نہتے مظاہرین پر طاقت کا استعمال شروع کیا تو عمارنہ نے اپنی جان پرکھیل کر ظلم کے شکار فلسطینیوں کی کوریج شروع کردی۔ اس دوران قابض فوجیوں نے اس کی آنکھ کو باقاعدہ نشانہ بنا کر آنسوگیس کا گولہ اس پرفائر کیا جس کے نتیجے میں وہ اپنی بائیں آنکھ سے محروم ہوگیا۔

آنکھ سے محروم ہونا عمارنہ کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ اس نے یہ قربانی اپنی قوم کے دفاع اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران پیش کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دشمن نے میری آنکھ ضائع کی ہے مگر میری بینائی موجود ہے اور دشمن حقیقت کی روشنی اور نور کو کسی صورت میں بجھا نہیں سکتا ہے۔

عمارنہ کو دو روز قبل غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کےشمال مغرب میں صوریف کے مقام پر نشانہ بنایا گیا۔ اسے اس وقت آنسوگیس کی شیلنگ کا نشانہ بنایا گیا جب اس نے مقامی شہریوں کی زمینوں پر اسرائیلی ریاست اور یہودی آباد کاروں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نکالی گئی ایک ریلی کی کوریج شروع کی۔

عمارنہ کو خون آلود جیکٹ اور کپڑوں میں ہی اسپتال منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹروں نے اس کے طبی معائنے کے بعد بتایا کہ اس کی بائیں آ نکھ اب کبھی بھی دیکھ نہیں سکے گی کیونکہ گولے کا ایک شیل آنکھ کے اندر پہنچ کر دماغ سے صرف تین سنیٹی میٹر دور رک گیا تھا۔

سینیر فلسطینی صحافی 32 سالہ معاذ عمارنہ کا تعلق غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم میں قائم الدھیشہ پناہ گزین کیمپ سے ہے۔ وہ متعدد مقامی ذرائع ابلاغ کے لیے کام کرتا ہے۔ الخلیل مین العروب کے مقام پر اسرائیلی فوج نے جب عمر البدوی نامی ایک فلسطینی کو گولیاں مار کر شہید کیا تو اس واقعے کی براہ راست کوریج معاذ عمارنہ ہی نے کی تھی۔

معاذ عمارنہ کا کہنا ہے کہ جب ہم لوگ صوریف کے مقام پر جہاں ریلی نکالی گئی تھی کی طرف جانے لگے تو اسرائیلی فوجیوں نے مجھے روک لیا۔ انہوں نے مجھ سے اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا۔ دیر تک میری گاڑی بھی روکے رکھی گئی۔ میں نے اپنا پریس کارڈ دکھایا مگر اس کے باوجود صہیونی فوجیوں نے مجھے صوریف کی طرف نہ جانے دیا۔ وہ جان بوجھ کر مجھے تاخیر کا شکار کرنا چاہتے تھے۔

صوریف میں پہنچنے کے بعد جب اسرائیلی فوجیوں نے معاذ کو نشانہ بنایا تو اس وقت اس کے کئی ساتھی وہاں موجود تھے۔ اس کے ساتھی راید الشریف نے بتایا کہ ہم لوگ صوریف میں القرینات کے مقام پرموجود تھے کہ ہم نے اسرائیلی فوج کے ایک نشانہ باز کو دیکھا۔ اسی دوران ہم نے ایک چیخ سنی۔ یہ چیخ معاذ کی تھی جس کا کہنا تھا کہ اسے گولی مار دی گئی ہے اور وہ زخمی ہے۔ تمام صحافی معاذ کی طرف مڑآئےاور انہوں نے دیکھا کہ معاذ خون میں لت پت تھا۔

صحافیوں نے فوری طورپر اس کی مرہم پٹی اور دیگر طبی امداد کے ساتھ ساتھ اس کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیں تاکہ صہیونی ریاست کے صحافیوں کو نشانہ بنانے کے مکروہ جرم کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاسکے۔

سوشل میڈیا پر اس تصویر کے وائرل ہونے کے ساتھ ہی صہیونی ریاست کے خلاف غم وغصے کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

فلسطین کی سیاسی، صحافتی، ابلاغی، سماجی اور مذہبی قوتوں نے صحافی کی آنکھ کو نشانہ بنانے کے صہیونی فوج کے حربے کو جنگی جرم  اور براہ راست صحافت پر حملہ قرار دیا۔

مختصر لنک:

کاپی