یہ پہلا موقع نہیں کہ صہیونی ریاست کی طرف سے بیت المقدس میں قائم تعلیمی اداروں کو بند کیا ہے۔ اس سے قبل بھی ایسے کئی حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔۔
اس طرح کے مکروہ حربوں اور ہتھکنڈوں کا مقصد بیت المقدس کے تہذیبی اور ثقافتی تشخص پر ضرب لگاتے ہوئے شہر کو یہودیوں کے ثقافتی ورثے میں شامل کرنا اور اس پر اپنا اسٹیٹس مسلط کرنا ہے۔
گذشتہ بدھ کے روز اسرائیلی حکام نے بیت المقدس میں متعدد فلسطینی ادارے بند کردیے۔ قابض پولیس کی طرف سے کہا گیا کہ یہ اقدام اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر کے حکم پر کیا گیا ہے۔
قابض فوج نے بیت المقدس میں فلسطینی وزارت تعلیم کے ہیڈ کواٹر کو بند کرنے کے ساتھ ڈائریکٹر تعلیم سمیر جبریل کو حراست میں لے لیا۔ قابض فوج نے پرانے بیت المقدس میں الرصاصی مسجد کو سیل کرنے کے بعد اس کی چابیاں بھی ضبط کرلیں جب مسجد سے متصل یتیم بچوں کا اسکول بھی بند کردیا گیا۔
اسی طرح قابض فوج نے جنوبی بیت المقدس میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران سلوان کے مقام سے بیت المقدس کے گورنر عدنان غیث کو حراست میں لے لیا۔
قابض حکام نے بیت المقدس میں فلسطین ٹیلی ویژن کے دفتر کو سیل کرنے کے ساتھ اس کی نامہ نگار کریسٹن ریناوی کو بھی تفتیش کے لیے طب کیا ہے۔
بیت المقدس میں شاہراہ سلطان پر واقع عرب ہیلتھ سینٹر کو بھی سیل کردیا گیا جب کہ اسپتال کے ڈائریکٹر احمد سرور کو حراست میں لے لیا۔ اسی طرح قابض فوج نے ایک ٹی وی پروڈکشن سینٹر کو بند کرکے اس کے فوٹو گرافر ایمن ابو رموز کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
امریکی حمایت
گذشتہ سوموار کے روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک نئے اور متنازع بیان میں کہا کہ ان کا ملک سنہ 1967ء کی سرحدوں کے اندر یہودی بستیوں کی تعمیر کو بین الاقوامی قوانین کے منافی نہیں سمجھتا۔ سنہ 1978ء کے بعد اختیار کی گئی امریکی پالیسی کا یہ سب سے بڑا یو ٹرن ہے۔ اس سے قبل تمام امریکی حکومتوں کا فلسطین میں یہودی آباد کاری سے متعلق موقف اگرچہ نرم رہا ہے مگر اس کے باوجود امریکا فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جب سے امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار پر فائز ہوئے ہیں امریکی انتظامیہ یکے بعد دیگرے بیت المقدس اور فلسطین کے حوالے سے صہیونی ریاست کی طرف داری کے اقدامات کرتا رہا ہے۔
بیت المقدس میں فلسطینی اداروں کی بندش امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے بیان کے محض دو دن بعد سامنے آیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے ہر اقدام کے پیچھے امریکا کی حمایت حاصل رہی ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیل کے تمام تہویدی مکروہ عزائم کو امریکا کی در پردہ حمایت اور مدد حاصل رہی ہے۔
فلسطین میں اسلامی سوسائٹی’تالف’ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ القدس کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل جو کچھ کررہےہیں وہ انتہائی خطرناک ہے۔
القدس کے تشخص پرحملہ
تجزیہ نگار خالد زبارقہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس کے فلسطینی اداروں کی بندش القدس کے اسلامی، عرب اور فلسطینی تشخص کو تباہ کرنے کی منظم کوشش اور القدس کے تشخص پربراہ راست حملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ القدس کے حوالے سے اسرائیل کے ہر اقدام کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہے کہ وہاں پرفلسطینیوں کا وجود ختم ہوجائے اور شہریہودیوں کی تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی علامت بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ القدس شہر اور اس میں موجود تمام مقدسات پر خوفناک یلغار مسلط کیے ہوئے ہیں۔
زبارقہ کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل بیت المقدس پر صہیونیت اور یہودیت کی چھاپ قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس میں موجود فلسطینی تعلیمی، ابلاغی اور طبی اداروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ القدس میں فلسطینیوں کی سرگرمیاں مکمل طور پرمحدود ہوجائیں۔