جمعه 15/نوامبر/2024

‘فلسطینی دو شیزہ جس نےصہیونی جیلروں کا گھمنڈ خاک میں ملا دیا’

اتوار 1-دسمبر-2019

اندرون فلسطین کے علاقے کفر قاسم سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ فلسطینی اسیرہ اور طالبہ شاتیلا ابوعیادہ نے عقوبت خانے میں پابند سلاسل ہونے کے باوجود انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے صہیونی جیلروں کا گھمنڈ خاک میں ملا دیا۔

شاتیلا ابو عیادہ نے صہیونی جیلروں اورجلادوں کے سامنے عزم و استقامت کا مظاہرہ کرکے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس نے صہیونیوں کے جبرو استبداد کا چیلنج قبول کرتے اس کا بھرپور اور پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے جس پر فلسطینی قوم کی طرف سے اسے شاندار خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ذرائع ابلاغ میں اسیرہ شاتیلا کی ماں ام علی کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں اس نے اپنی ہونہار اور بہادر لخت جگر کو یوں خراج تحسین پیش کیا ‘آپ کی امتحان میں شاندار کامیابی امید، مستقبل، صبرو ثبات کی عمدہ مثال ہے، آپ کی کامیابی عزیمت، جرات، چیلنج اور تمام مشکلات کے باوجود اپنی ذات پر اعتماد کا ثبوت ہے۔ میری لخت جگر میں آپ ہزار بار مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ آپ کی محنت اور صہیونی جیلروں کے سامنے استقامت کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ میں اللہ کریم سے تمہاری دشمن کی قید سے رہائی کے لیے دست بہ دعا، آپ کی عزت وقار کی زندگی کی متمنی ہوں۔ دشمن کی قید میں جلادوں کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑا ہونے پر بھی میں تمہیں مبارک باد پیش کرتی ہوں’۔

خیال رہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے شاتیلا ابو عیادہ کو 3 اپریل 2016ء کو حراست میں لیا تھا۔ قابض فوج نے اس پر ایک یہودی خاتون آباد کار کو چاقو گھومپ کر زخمی کرنے کا الزام عاید کیا اور اسی الزام میں اسے قید کی سزا سنائی گئی۔ حال ہی میں اس نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں قیدی ہونے کے باوجو 81 فی ص نمبر حاصل کرکے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ادھوری خوشی

ام علی کا کہنا ہے کہ اگرچہ میری بیٹی نے صہیونی  جیل میں قید کے باوجود امتحان میں شاندار کار کردگی دکھائی ہے اور یہ ہمارے لیے خوشی کا ذریعہ ہے مگر یہ خوشی ادھوری ہے۔ ہم اس وقت خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے لبریز ہیں۔ ہمیں شاتیلا کی امتحان میں بہترین کارکردگی دکھانے کی خوشی ہے مگر اس کے جیل میں ہونے کادکھ اور غم بھی ہے۔

ام علی نے کہا کہ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ شاتیلا نہ صرف کامیاب ہوگئی ہے بلکہ اس نے 81 فی صد نمبرات حاصل کیے ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہوگئے مگر ساتھ ہی مجھے یہ قلق بھی تھا کہ شاتیلا خود ہمارے درمیان میں نہیں۔ کاش وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی۔

ام علی کا کہنا تھا کہ میں اپنی بیٹی کی کامیابی پر خوشی منائوں یا اس کے دور ہونے پر اشک بہائوں۔ میں اپنی بیٹی کے جذبات کو سمجھتی ہوں۔جب اسے اپنی کامیابی کی خبر ملے گی تو وہ بھی ضرور خوش ہوگی مگر اس کی خوشی اس کی رہائی کے بغیر ہم سب کے لیے ادھوری ہے۔

چیلنج

ام علی کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی شاتیلا اسرائیل میں انٹرمیڈیٹ کی طالبہ ہے۔ اس نے بگروٹ کی ڈگری بھی لے رکھی ہے جب کہ وہ تل ابیب کی اوپن یونیورسٹی سے علم نفسیات کی طالبہ بھی رہی ہے۔ مگرگرفتاری کے بعد صہیونی حکام نے وزارت تعلیم سے اس کا نام نکال دیا۔

اسیرہ کی ماں کا کہنا تھا کہ صہیونی حکام نے اس کی ڈگری بھی دبا رکھی ہے۔ ہم نے بار بار ڈگری دینے کا کہا مگر ہربار ہمارا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔ اس نے فلسطینی بورڈ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان شاندار نمبروں کے ساتھ پاس کیا اور وہ اب فلسطینی جامعات ہی سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی