جمعه 15/نوامبر/2024

‘اسرائیل کو ٹرمپ جیسا وفادار امریکی صدر نہیں ملے گا’

جمعرات 19-دسمبر-2019

امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر امریکیوں کے لیے تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا مگر ٹرمپ صہیونی ریاست کے لیے جتنے مفید ثابت ہوئے ہیں اسرائیل کو امریکی تاریخ میں ایسا سخی، مخلص اور وفا دار دوست نہیں لگے۔ یہ امریکا کی بد بختی اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ٹرمپ جیسا عالمی لیڈر ملا ہے جو اسرائیل کے لیے بہت کچھ اور فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے میں صہیونی ریاست کا شراکت دار اور ساجھی ہے۔

ٹرمپ کی پالیسی خود امریکا کی ماضی کی پالیسی کے خلاف، عالمی قانون اور یورپی یونین کے موقف سے انحراف ہے۔ انہوں نے اوول آفس میں قدم رکھنے سے قبل ہی اسرائیل کے لیے بہت کچھ کرنے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے اعلانات کردیے تھے۔ انہوں نے مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا، دو ریاستی حل کے تصور کی مخالفت کی اور حال ہی میں فلسطین میں یہودی آباد کاری کی حمایت کرتے ہوئے کہا امریکی انتظامیہ فلسطین میں یہودی آباد کاری کے خلاف نہیں۔

امریکی انتظامیہ کی طرف سے صہیونی ریاست کی طرف داری پرمبنی پالیسی کا کھلم کھلا اظہارکیا جا رہا ہے۔ القدس، یہودی آباد کاری، عالمی قراردادوں سے انحراف اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ایسے واقعات ہیں جن سے امریکا کی فلسطینیوں سے دشمنی کھل کرسامنے آتی ہے۔

سال 2019ء ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسی کا اظہار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کی نظریاتی، مذہبی اور فکری وابستگی کا اظہار ہے۔ یہ پالیسی اوسلو معاہدے کے خلاف ہے۔

جارحیت کا تسلسل

یہ کہنا کوئی بدشگونی نہیں کہ امریکی انتظامیہ کی قضیہ فلسطین کے حوالے سے جاری پالیسی ٹرمپ کے مُمکنہ دوسرے عہد حکومت میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ اگر وہ دوسری مرتبہ انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ فلسطینیوں کو مزید تنہا اور نہتا کرنے کے لیے آخری اقدام سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

تجزیہ نگار طلال عوکل کا کہنا ہے کہ سال 2019ء میں امریکی انتظامیہ بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ نے قضیہ فلسطین کے خلاف کھل کراپنی نفرت اور اسرائیل کی طرف داری کا اظہارکیا۔ فلسطین کے حوالے سے عالمی قراردادوں سے کھلم کھلا انحراف کیا۔

ٹرمپ نے سنہ 2017ء میں جو قومی سلامتی کی دستاویز جاری کی تھی اس کے اہداف میں اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں غلبہ دلانا ، ایران اور شمالی کوریا جیسے حریف ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کرنا اور توانائی کے ماخذ پر قبضہ کرنا تھا۔

مسٹر عوکل کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے آخری ایام اقتدار میں امریکا نے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے خلاف دی جانے والی قرارداد کی حمایت کرکے یہ تاثر دیا تھا کہ امریکا فلسطینیوں کے حوالے سے دو ریاستی حل کا حامی ہے مگرموجود صدر نے القدس اسرائیل کے حوالے کیا۔ وادی گولان پراسرائیل کا تسلط تسلیم کیا، غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی حمایت کی، فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی کفیل ایجنسی’اونروا’ کی امداد بند کی اور امریکا میں تنظیم آزادی فلسطین کے مندوبین کو بے دخل کیا۔

سال 2019ء فلسطینیوں کے حوالے سے مایوسی کا سال ہے۔ کیونکہ امریکا کی فلسطینیوں کے خلاف پالیسیوں اور معاندانہ اقدامات میں اضافہ ہوا۔

یہودی آباد کاری اورانسانی مسئلہ

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو طویل عرصے تک صہیونی ریاست کا وزیراعظم ہونے پر فخر ہو یا نہ ہومگر وہ فلسطین میں امریکا کی آشیر باد سے یہودی آبادکاری اورتوسیع پسندی پر کھل کر فخرکا اظہارکرتے ہیں۔ امریکا کی اندھی حمایت، عالم اسلام کی طرف سے فلسطینیوں کو نظر انداز کیے جانے اورعرب ممالک کی طرف سے اسرائیلی جرائم پر دانستہ خاموشی نے فلسطین میں یہودی آباد کاری اور یہودی بستیوں کی توسیع کے رحجان میں اضافہ ہوا۔

گذشتہ برس امریکا نے ‘اونروا’ کی مالی امداد بند کرکے قضیہ فلسطین کےجوہرکو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

امریکی انتظامیہ کی طرف سے اونروا کی مالی امداد بند کرکے لاکھوں فلسطینیوں کو بے یارو مدد گار کرنے کی مذموم کوشش کی مگر حال ہی میں جنرل اسمبلی نے ‘اونروا’ کے مینڈیٹ میں 2023ء تک توسیع کرکے امریکا کو یہ باور کرایا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے جسے سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔

‘اونروا’ کی حمایت میں قرارداد کے حق میں 170 ووٹ آئے جب کہ امریکا اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی۔ سات ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

تجزیہ نگار طلال عوکل کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی سنہ 2019ء کے دوران جاری رہنے والی پالیسی میں قضیہ فلسطین کو انسانی مسئلے کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ امریکا کی طرف سے جو کچھ کیا گیا وہ صرف اسرائیل کے مفاد میں کیا گیا اور فلسطینیوں کے بنیادی اصولی مطالبات اور حقوق کی نفی کی گئی۔

مختصر لنک:

کاپی