ویسے تو اسرائیلی زندانوں میں فلسطینی اسیران کا گذرنے والا ہر لمحہ کم اذیت ناک نہیں مگر سال 2019ء فلسطینی اسیران کے لیے جس طرح کی مصائب وآلام کے ساتھ شروع سے اختتام تک رہا اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ صہیونی جیلروں کی طرف سے اسیران پر ایسی کون سی پابندی اور قدغن ہے جو نہیں لگائی گئی۔ حتیٰ کہ اسیران کا پانی تک بند کردیا گیا اور انہیں بھوکا اور پیاسا رکھنا صہیونی جیلروں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا۔
اسرائیلی داخلی سلامتی کےوزیر گیلاد اردان نے ایک پریس کانفرنس میں فلسطینی اسیران کے حقوق تلف کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل پانچ ہزار فلسطینی اسیران کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
جنوری 2019ء کو اسرائیلی ریاستنے فلسطینی اسیران کو الگ الگ کرنے کی ایک نئی پالیسی اپنائی گئی۔ فوج داری کیسز میں پابند سلاسل اسیران کو الگ کردیا گیا اور انہیں پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم کردیا گیا۔ ہر اسیر کے لیے پانی کی محدود مقدار مقرر کی گئی اور اسیران کو اپنے طور کھانا تیار کرنے سے محروم کردیا گیا۔ فلسطینی اسیران ان پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے اور انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کردی۔ بالآخرصہیونی حکام کو اسیران کے جائز مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔
رواں سال کے دوران اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں پر تشدد کے حربوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ صرف ‘عوفر’ جیل میں فلسطینی اسیران اور اسرائیلی فوج کے درمیان کئی بار تصادم ہوا اور کم سے کم 300 فلسطینی قیدی زخمی ہوئے۔
فلسطینی اسیران کےامور کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صہیونی دشمن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسیران کے حقوق کی سنگین پامالیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 2019ء فلسطینی اسیران کے حقوق کی پامالیوں کا سال ہے اور ماضی کی نسبت فلسطینی اسیران کے حقوق تلفی میں اضافہ دیکھا گیا۔
بدترین سال
فلسطینی تجزیہ نگار فلسطینی اسیران کے امور کے ماہر عبدالناصر فروانہ کا کہنا ہے کہ سال 2019ء اسیران کے لیے بدترین سال گذرا ہے۔ رواں سال فلسطینی اسیران کی زندگیوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اسیران پر ڈھائے جانے والے مظالم کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اسیران کو جس طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی خطرناک اور سنگین تھیں اور انہیں الفاظ کے پپرائے میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فروانہ نے کہا کہ اسرائیلی ریاست کے انتخابات اور کنیسٹ کے آخری مرحلے کے انتخابات کےدوران فلسطینی اسیران کے خلاف سخت ترین فیصلے کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی ریاست فلسطینی اسیران کے اسٹیٹس اور ان کے بنیادی حقوق کو پامال کررہے ہیں۔ فلسطینی اسیران کے حقوق کی جدو جہد کو کچلنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تشدد کے باعث پانچ فلسطینی قیدی گذشتہ برس جام شہادت نوش کرگئے۔
سال 2019ء کے دوران اسرائیلی فوج کے تشدد سے سامی ابو دیاک، فارس بارود، عمر عونی یونس، نصار طقاطقہ، بسام السائح شہید ہوئے۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد اب تک 222 فلسطینی اسیران جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔
خطرناک اعدادو شمار
عبدالناصر فروانہ نے اعدادو شمار کی زبان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سال 2019ء کے دوران اسرائیلی زندانوں میں رجسٹرڈ فلسطینی اسیران کی تعداد 5500 ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے اور اس کے بعد القدس سے تعلق رکھنے والے فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔
رواں سال کے دوران اسرائیلی فوج نے 180 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا۔ بچوں کی منظم انداز میں گرفتاریاں اور ان پر تشدد اسرائیلی ریاست کی سرکاری پالیسی کی شکل میں جاری رہا۔
سنہ 2019ء کے دوران اسرائیلی حکام نے 1050 فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں سنائیں۔ رواں سال کے دوران 120 خواتین کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 40 اب بھی صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔