نئے سال کے آغاز میں نمرعبید نامی ایک فلسطینی نژاد لبنانی پر مسلح فلسطینی انقلاب کی 55 ویں سالگرہ مختلف انداز میں آئی۔
نمرعبید جنوبی لبنان کے قصبے برعشیت میں مقیم تھا جہاں سے وہ کچھ عرصہ قبل کویت چلا گیا۔ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کا پرزور حامی ہونے کے ساتھ دائیں بازو کےنظریات رکھتا ہے۔ طویل عرصے تک اس کا خیال تھا کہ وہ بنت جبیل کے علاقے الجیرہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا خاندان اسی علاقے کا باشندہ ہے۔ مگر حال ہی میں اسے یہ پتا چلا کہ اس کے آبائو اجداد فلسطین سے آئے اور اس کی رگوں میں بھی فلسطین کا خون دوڑتا ہے۔
نمر عبید کو اس کے والد کی پیدائش کی ایک تصویر ملی ہے۔ یہ تصویر اسے فلسطینی حکومت کے وزرات صحت کے ریکارڈ میں موجود دستاویزات سےملی۔ اسے پتا چلا کہ اس کے والد 1943ء کو شمالی فلسطین کے شہر حیفا میں پیدا ہوئے تھے۔
یہ تو نمر عبید کو معلوم تھا کہ اس کے والد سنہ 1948ء کی النکبہ سے قبل فلسطین میں پیدا ہوئے مگرانہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ سرکاری ریکارڈ میں ان کے والد کی تصویر اور دیگر معلومات بھی ہوسکتی ہیں۔ اسے صرف یہ پتا تھا کہ اس کے جد امجد سیکڑوں جنوبی لبنانیوں کی طرح برعشیت سےھجرت کرکے فلسطین آگئے تھے مگر اب اسے پتا چلا کہ وہ اس کے خاندان کا شجرہ نسب لبنانی نہیں بلکہ فلسطینی ہے۔ نمرعبید اس باب میں اکیلا نہیں بلکہ ایسے ہزاروں پناہ گزین آج مصری، شامی یا لبنانی ہوچکے ہیں جن کا شجرہ نسب بھی فلسطین سے جا ملتا ہے۔
ان کے دادا نے حیفا میں ایک بیکری اور سویٹس کی دکان کھولی۔ ان کی اہلیہ حسیبہ بھی جنوبی لبنان سے ان کے ہمراہ وہاں گئی تھیں۔ نمبر عبید کے والد اور ان کی چچے، تائے اور پھوپھیاں سنہ 1948ء سے قبل ہی پیدا ہوگئی تھیں۔ نمر کے والد سنہ 1948ء میں ارض فلسطین پر نام نہاد صہیونی ریاست کے قیام کے وقت پانچ سال کے تھے۔
نمر عبید کی ماں نورا فرحات عرب صالیم قصبے سےتعلق رکھتی تھیں۔ وہ بھی اپنے بچوں کو یہ نہیں بتا سکیں کہ ان کے والد کا فلسطین میں آبائی علاقہ کون سا تھا۔ وہ جمال عبدالناصر کے مداحوں میں شامل تھیں اور انہوں نے اپنے گھر میں بھی عبدالناصرکی تصاویر لگا رکھی تھیں۔
نمر کے وجدان میں فلسطین سے محبت موجود تھی۔ اس کے لیے والد کی فلسطینی دستاویزات میں موجود معلومات حیران کن تھیں۔ جب اسے اپنے والد کی ایک پرانی تصویر ملی تو اس نے فلسطینی حکام سے اس حوالے سے رابطہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے رام اللہ اور نابلس میں فلسطینی اتھارٹی کے ریکارڈ کی چھان بین شروع کردی اور آخر کار اسے اپنے والد کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوگئیں۔
فلسطینی تشخص کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم’ھویۃ’ نے سنہ 2010ء میں سابقہ فلسطینی ریکارڈ محفوظ کرنے کی ایک نئی مہم شروع کی تھی۔ اس تنظیم نے نمر عبید اور سیکڑوں دوسرے ایسے فلسطینیوں کے ریکارڈ مرتب کیے جن کی شناخت وقت کے ساتھ اب فلسطین کے بجائے شامی، مصری یا لبنانی ہوگئی تھی۔
کئی سال کی چھان بین کے بعد عبید کو معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں پڑوسی ملکوں سے لوگ سیاحت، تجارت، کاروبار اور دیگرمقاصد کے لیے فلسطین کا رخ کرتے تھے۔
لبنانی روزنامہ ‘الاخبار’ کودیے گئے انٹرویو میں تنظیم کےسیکرٹری جنرل یاسر قدورہ نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد فلسطینیوں کے حق واپسی کو مزید مستند کرنا تھا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو صرف ریکارڈ یا اعدادو شمار میں نہیں بلکہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے میدان عمل میں ہوناچاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک 450 خاندانوں سے بات کرکے ان کا فلسطین کا شجرہ نسب ثابت کیا گیا حالانکہ وہ شام، لبنان یا لبنان کی شہریت رکھتے ہیں۔