چهارشنبه 30/آوریل/2025

‘دیر بلوط ‘ پناہ گزین جہاں زندگی موت سے بد ترہوچکی!

ہفتہ 11-جنوری-2020

شمالی شام میں دیر بلوط کے مقام پر قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپ کے مکینوں کی حالت زار اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس پناہ گزین کیمپ میں سیکڑوں فلسطینی خاندان قیام پذیر ہیں مگران کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سخت سردی کے موسم میں ایسے لگتا ہے کہ یہاں کے مکینوں پرسورج کبھی طلوع نہیں ہوتا اور موسم سرما کا سیزن جیسے اپنی سانسیں روکے ہوئے ہے۔

کئی ماہ سے روزانہ کی بنیاد پرہونے والی بارشوں اور سخت ترین ٹھنڈی ہوائوں نے دیر بلوط کیمپ کے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اور پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ مقامی باشندوں کا شکوہ ہے کہ انسانی حقوق کے مندوب اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اس کیمپ کا صرف درشن کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں کسی قسم کی کمی نہیں آسکی۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں دیر بلوط پناہ گزین کیمپ میں فلسطینی پناہ گزینوں کو درپیش مشکلات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں کیمپ میں رہائش پذیر بعض شہریوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

کیمپ کے رہنے والے ایک پناہ گزین ابو خلیل نے ہاتھ میں سیگریٹ پکڑے نامہ نگار محمد صفیہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔ لگتا ہے ہم اور ہمارے بچے اسی بے سروسانی کے دوران چل بسیں گے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ہر روز اس جگہ آکر بیٹھتا ہوں اور اپنی تلخ یادوں کو بھلانے کی کوشش کرتاہوں۔ میں میں یرموک پناہ گزین کیمپ کے خیالوں میں گم سڑکوں پر مٹر گشت کرتا ہوں جہاں میں روزانہ اپنے دفتر جایا کرتا تھا۔

دیر بلوط پناہ گزین کیمپ میں موجود فلسطینی پناہ گزین نوجوان اور مردو خواتین سب پریشان ہیں۔ ایک فلسطینی خاتون جو اپنے خیمے کے باہر ٹھنڈے پانی میں پلاسٹک کے ایک برتن میں کپڑے دھو رہی تھی نے ‘قدس پریس’ نامہ نگار کو مسکرا کر دیکھا۔ اسے پتا چل گیا کہ یہ کوئی صحافی ہیں۔ اس نے تھکاوٹ سے بھرپور چہرے کے ساتھ صحافی سے کہا کہ آج تک آپ کی طرح بہت لوگ آگئے اور طفل تسلیاں دے کرچلے گئے۔

فلسطینی خاتون ام عماد کا کہنا ہے کہ میرے چار بچے ہیں اور میں ہر روز ان کے کپڑے دھوتی ہوں۔ یہاں بجلی نام کی کوئی چیز نہیں اور سڑکیں اور گلیاں کیچڑ سے اٹی پڑی ہیں۔

ام عماد کا کہنا تھا کہ وہ گھاس پھوس چن کر بچوں کے لیے اس پرکھانا پکاتی ہیں۔ پلاسٹک کے ٹکڑے، بوسیدہ کپڑے، ٹوٹی پھوٹی لکڑیاں یا کسی کے دیے ہوئے کوئلے ہمارے گھروں میں کھانے بنانے کا آخری وسیلہ ہیں۔

اس کیمپ کے رہائشی ایک فلسطینی نوجوان ابراہیم الشھابی کا کہنا ہے کہ یہاں پر سنہ 2018ء میں فلسطینی پناہ گزینوں کو منتقل کیا گیا۔ یہاں نہ بجلی ہے اور نہ کوئی دوسری بنیادی سہولت دستیاب ہے۔ یہاں بسائے گئے شہری شمسی توانائی کے ذریعے ایمرجنسی لائیٹن چار کرتےہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کیمپ میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے غرب آفتاب سے طلوع تک لوگ اندھیرے میں وقت گذارتے ہیں۔

خیال رہے کہ دیر بلوط پناہ گزین کیمپ میں 300 فلسطینی پناہ گزینوں کو منتقل کیا گیا ہے۔ یہاں پر لائے فلسطینی شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث پہلے دوسرے علاقوں میں باقاعدہ کیمپوں میں مقیم تھے مگراب شام میں جاری رہنے والی خوفناک جنگ کے باعث ان کیمپوں کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی