قابض صہیونی ریاست اور اس کے ماتحت سیکیورٹی، فوجی اور قانونی اداروں کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف منظم جرائم کے حوالے سے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ ان نام نہاد بہانوں اور جوازوں کی آڑ میں فلسطینی شہریوں اورجیلوں میں قید فلسطینیوں کے حقوق کی پامالیاں کی جاتی ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور سیاہ کاریوں کو مختلف خوش نما اصطلاحات کے پردے میں دنیا کے سامنے پیش کرکے اسرائیلی ریاست اپنے جرائم چھپانے اور فلسطینیوں کوقصور وار قرار دیتے ہیں۔
ایسی ہی رنگ سازی اور اصطلاحات کی ایک نئی شکل جسے ‘قانونی رنگ آمیزی’ کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ ‘غیرقانونی’ جنگجو’ کی ہے۔
‘غیرقانونی جنگجو’ کی اصطلاح اگرچہ نئی نہیں مگر آج کل یہ ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو محاصرہ زدہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی سےروزگار کی تلاش میں سرحد پار کرکے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں۔ نہتے اور غیرمسلح ہونے کے باوجود صہیونی ریاست ان فلسطینی نوجوانوں کو’غیرقانونی جنگجو’ قرار دیتا اور ان کے ساتھ جنگی مجرموں والا سلوک کیا جاتا ہے۔ بے روزگاری سے تنگ فلسطینی اپنی جان خطرے میں ڈال کر سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں مگر وہاں پر داخل ہونے اور پکڑےجانے کے بعد انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیردفاع نفتالی بینیٹ نے ‘غیرقانونی جنگجو’ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ایک اچھی ڈیل ‘غیرقانونی جنگجوئوں کی رہائی کے بدلے’ میں بھی ہوسکتی ہے۔ اسرائیلی اخبار’ہارٹز’ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع فلسطینی مزاحمت کاروں کی قید میں موجود اسرائیلیوں کی رہائی کے بدلے میں غیرقانونی جگجوئوں کی رہائی کی بات کرسکتے ہیں۔
بینیٹ کا کہنا ہے کہ غزہ کے غیرقانونی جنگجوئوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ انہیں فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں کسی ڈیل میں رہا کیا جاسکتا ہے۔ مستقل میں فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں غیرقانونی جنگجوئوں کو استعمال کیا سکتا ہے۔
ناکامی صہیونی ریاست کا مقدر
فلسطینی اسیران میڈیا سینٹرکے ڈائریکٹر ناھد الفاخوری نے اسرائیل کے اس نئے حربے پربات کرتے ہوئے کہا کہ ‘غیرقانونی جنگجو’ کی اصطلاح اس لیے استعمال کی ہے تاکہ ان پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی بارگیننگ کی جاسکے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الفاخوری نے کہا کہ جس طرح اسرائیل نے ‘انتظامی قید’ کی اصطلاح اختیارکی مگر صہیونی ریاست اپنے اس ہتھکنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی اصطلاح بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلا ورزی ہے۔ سنہ 2005ء کو غزہ کی پٹی سے شکست اور وہاں سے انخلا کے بعد اس طرح کی اصطلاحات استعمال کیں۔
منظم جرائم کا تسلسل
سابق فلسطینی اسیر عبدالناصر فروانہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست غزہ کی پٹی سے سرحد پار کرنے والے فلسطینیوں کے حوالے سے منظم جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار کرنے والے پرامن فلسطینیوں اور مزدرو طبقے کو جنگجو قرار دینا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست غزہ کے بے بس اور لاچار فلسطینیوں کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیلوں میں شامل کرکے بلیک میل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ فلسطینی نوجوانوں جو رزق کی تلاش میں نام نہاد سرحد سے دوسری طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں جنگجوئوں میں شامل کرکے بلیک میل کرنے کے حربے کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
عبدالناصرفروانہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2019ء کے دوران اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے سرحد پار کرنے والے 134 فلسطینیوں کو حراست میں لیا۔ ان میں سے 84 کو سرحدی پاڑ کی دوسری طرف جانے پر حراست میں لیا گیا۔ اسی طرح غزہ اور غرب اردن کی درمیانی گذرگاہ ‘بیت حانون’ سے 37 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔