جمعه 15/نوامبر/2024

زبان پرچربی کم ہونے کے حیرن کن فواید

پیر 13-جنوری-2020

ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوتے وقت لوگوں کی سانس بند ہو جانے سے نیند میں خلل پیدا ہونے کا تعلق ان کی زبان پر چربی کی طے سے سکتا ہے۔

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ’سلیپ اپنویا‘ نامی بیماری کی وجہ سے بے آرام نیند کی شکایت کرنے والے مریضوں کا جب وزن کم ہو جاتا ہے اور اس سے زبان پر جمی چربی گھل جاتی ہے تو ان کا یہ مرض دور ہونے لگتا ہے۔

’سلیپ اپنویا‘ نامی بیماری عام ہے اور اس سے نیند کے دوران سانس کے بند ہونے سے بلند آواز میں خراٹے آنا، زور زور سے سانس لینا اور گہری نیند میں جھٹکے آسکتے ہیں۔

موٹاپے کا شکار لوگوں کی زبان زیادہ موٹی اور بڑی ہوتی ہے۔

رات کو نیند میں خلل پڑنے سے دن میں آپ سست اور نیند میں رہتے ہیں جس سے آپ کے معمولات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں۔

سب سے عام شکایت میں نیند کے دوران مریض کے اوپر کی سانس کی نالی جزوی یا مکمل طور پر بند ہو جاتی ہے۔

جو لوگ فربہ ہوتے ہیں یا ان کی گردن موٹی ہوتی ہے یا ان کے گلے میں ٹونسل یا غدود ہوں انہیں نیند خراب ہونے کی زیادہ شکایت ہوتی ہے۔

پینسلوینیا یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ موٹی زبان والے دوسرے لوگوں کو بھی گہری اور پر سکون نیند نہ آنے کی شکایت ہو سکتی ہے۔

تحقیق کار اب اس بات کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون سے کم چکنائی والی خوراک زبان کی چربی کم کرنے کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں پرلمین سکول آف میڈیسن کے ماہر اور اس تحقیق کے مصنف ڈاکٹر رچرڈ شواب نے کہا کہ ’آپ بولتے، کھاتے اور سانس زبان کی مدد سے لیتے ہیں تو پھر زبان پر چربی کیوں جم جاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ کیوں، اس کا سبب موروثی اور ماحولیاتی بھی ہو سکتا ہے لیکن جب چربی کم ہو گی تو زبان سے حلق بند ہونے کا کم امکان ہوگا اور اس سے آپ کی نیند خراب نہیں ہو گی۔‘

جن مریضوں کو یہ شکایت شدید ہو جاتی ہے تو انھیں ڈاکٹروں سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس شکایت کو دور کرنے کے لیے کیپ مشین کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو سوتے وقت منہ پر لگائے گئے ایک ماسک کے ذریعے بہت آہستگی سے ہوا آپ کے نتھوں اور منہ میں بھرتا ہے جس سے آپ کی سانس کی نالیاں کھلی رہتی ہیں۔

یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے پریلمین سکول آف میڈیسن کے تحقیق کاروں نے ایسے 57 مریضوں کا معائنہ کیا جو موٹاپے کا شکار تھے اور جنھوں نے دس فیصد وزن کم کیا جس کی وجہ سے ان میں اس مرض کی علامات 30 فیصد تک کم ہو گئیں۔

 

مختصر لنک:

کاپی