‘ہمارے ساتھ کوئی بھی کھڑا نہیں۔ وادی اردن کے فلسطینی باشندوں کے صبرو استقامت اور معاونت کی تمام باتیں اور دعوے بے بنیاد ہیں۔ ہم سنتے ہیں کہ وادی اردن کے فلسطینی باشندوں کی ہرممکن مدد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگرہم یہ باتیں صرف سنتے ہیں مگران پرعمل درآمد نہیں دیکھتے۔ہر کسان اور کاشت کار میدان میں بغیر کسی سہارے کھڑے ہیں اور سب بے یارو مدد گار ہیں’۔
یہ الفاظ وادی اردن کے علاقے طوباس سے تعلق رکھنے والے ایک کسان احمد دراغمہ کے ہیں جنہوں نے اپنے پانچ زرعی ٹریکٹرصہیونی فوج کے ہاتھوں غصب کیے جانے کے بعد مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے گفتگو کے دوران بیان کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے یکے بعد دیگرے میرے پانچ ٹریکٹر غصب کیے۔ یہ ٹریکٹر شمالی وادی اردن میں سھل ام القبا میں تھے۔ یہ ٹریکٹر نہ صرف احمد دراغمہ کی اراضی میں کاشت کاری کے لیے استعمال ہوتے تھے وہاں دوسرے فلسطینیوں کی زرعی اراضی کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔
ایک دوسرے کاشت کار احمد ابو محسن اور دیگر کاشت کاروں کا کہناہے کہ آنے والی بارش کے سیزن میں وہ کھیتوں میں ہل چلائیں گے مگر اب وہ ٹریکٹروں سے محروم ہوچکے ہیں۔
کاشت کاروں کا مسلسل نقصان
المالح کی دیہی کونسل کے چیئرمین مہدہ دراغمہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی اردن کے کاشت کار اسرائیلی ریاست کے انتقامی حربوں کی وجہ سے مسلسل نقصان پر نقصان اٹھا رہےہیں۔ ٹریکٹروں اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی میشنری اور پانی کی ٹینکیوں پر اسرائیلی فوج کے غاصبانہ قبضے نے وادی کے کاشت کاروں کی مشکلات میں اور بھی اضافہ کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے دراغمہ نے کہا کہ وادی اردن میں زراعت مقامی آبادی کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ یہ پیشہ اس لیے بھی مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ صہیونی فوج نے اس علاقے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور دوسرے کاموں پرپابندی عاید کررکھی ہے۔ مقامی آبادی کے پاس گذر بسر کے لیے زراعت کے سوا اور کوئی پیشہ نہیں بچا ہے۔ اب صہیونی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کاشت کاروں اور کسانوں پربھی عرصہ حیات تنگ کررہی ہے۔ کاشت کاروں کے ٹریکٹر، پانی کی ٹینکیاں زرعی مشینری غصب کرکے فلسطینی کاشت کاروں کو زراعت سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ان حربوں کے باعث مقامی فلسطینی کاشت کاروں کو غیرمعمولی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایک مقامی کاشت کار نمر الحروب کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی طرف سے اس کے دو ٹریکٹرغصب کیے گئے جب کہ کئی دوسرے کاشت کاروں کی اراضی بھی غصب کی گئی۔ نمر الحروب کا کہنا تھا کہ ہمیں برائے نام فوٹوسیشن کی ضرورت نہیں۔ کسی نے ہماری مدد کرنی ہے تو وہ ہمارے زرعی آلات کی واپسی میں ہماری مدد کریں۔ ان کاکہنا تھا کہ ہمارے مویشی تک ہم سے چھین لیے گئے ہیں۔ زرعی اراضی چھینی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ وادی اردن کا کل رقبہ 7 ساکھ 20 دونم پرمشتمل ہے۔ وادی اردن تزویراتی اہمیت کا حامل مقام ہے۔ اسرائیل کی مشرقی سرحد وادی اردن سے ملتی ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر دفاع ‘یگال الون’ کا وادی اردن کے حوالے سے ایک بیان آج بھی موجود ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ جب تک دریائے اردن کے مشرقی حصے پر قبضہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک یہودی ریاست کی بقاء کا کوئی تصور ممکن نہیں۔
اسرائیلی ریاست نے فوجی کیمپوں کے ذریعے وادی اردن کے چار لاکھ دونم رقبضے کو فلسطینیوں سے چھین لیا ہے۔ اس علاقے کو ‘فوجی زون’ قرار دے کر وہاں پر کسی قسم کی زرعی یا تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان میں خربہ یزرا، وادی المالح، اور دوسرے علاقے شامل ہیں۔ کئی علاقوں میں بارودی سرنگیں بچھا کر فلسطینیوں کو ان کی اراضی سے محروم کیا گیا ہے۔