امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی انتہا پسند وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی 28 جنوری بہ روز منگل وائٹ ہائوس میں کی گئی اس پریس کانفرنس کو یہودی اور مسیحی صہیونی مذہبی سوچ سے الگ نہیں کیا جاسکتا جس میں انہوں نے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا۔
دونوں لیڈروں کی سوچ، نظریات اور مذہبی پس منظر میں کافی ہم آہنگی پہلے ہی پائی جاتی ہے۔ امریکی صدر کے ‘صدی کی ڈیل’ منصوبے نے مشرق وسطیٰ میں یہودی مذہبی انتہا پسندی کی روح کو ایک بارپھر نمایاں کرکے سب کے سامنے پیش کردیا ہے۔
اگرچہ دونوں لیڈروں ٹرمپ اور نیتن یاھو نے صدی کی ڈیل کے منصوبے کو فلسطینیوں اور اسرائیل کےدرمیان جاری کشمکش کے حل کے سیاسی فارمولے کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی مگر دونوں کے بیانات، الفاظ، انداز گفتگو اور بیانیے میں یہودی مذہبی تعلیمات اور ٹرمپ کی مسیحی سوچ کا عکس صاف دکھائی دے رہی تھی۔
متحدہ بیت المقدس، یہودی ریاست، حرم مسجد اقصیٰ کے لیے ‘جبل ہیکل ، حضرت یعقوب علیہ السلام، الخلیل شہر کو حضرت ابراہیم سے مربوط کرنا یہ سب وہ الفاظ اور اصطلاحات ہیں جو اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کےنام نہاد امن منصوبے کے پیچھے یہودی مذہبی روح کار فرما ہے۔
داخلی سطح پر نیتن یاھو بدعنوانی، چوری، خیانت اور لوٹ مار جیسے سنگین الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔ دو بار ہونے والے کنیسٹ کے انتخابات میں یاھو کو الیکشن جیتنے کے باوجود حکومت سازی میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف ٹرمپ عیسائی صہیونی مذہبی پس منظر رکھتا ہے۔ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنے ہاں جتنے صہیونیوں کو جگہ دی ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
مذہبی بیانیہ
نیتن یاھو نے ایک بار پھر فلسطینی ۔ اسرائیلی کشمکش کو اس کی اصل کی طرف موڑ دیا ہے۔ یہودیت اور انتہا پسندانہ صہیونیت کی روح تورات اور انجیل کے حوالے ٹرمپ ۔ نیتن یاھو کے نام نہاد منصوبے کے مذہبی پس منظر کو واضح کرتے ہیں۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر جمال عمرو نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی پروگرام نے ‘اسرائیل’ کی بہ طور ریاست بنیاد رکھی۔ اگرچہ اس کے لیے سیکولرزم کا سہارا لیا گیا۔ اس کے ابتدائی لیڈروں نے اگرچہ جمہوریت، مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا مگر در پردہ صہیونی لیڈر ایک ایسے اسرائیل کے لیے کوشاں رہے جس کی رگ رگ میں مذہب کا خٰون دوڑتا ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب سے اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا اس وقت سے ہی یہودیوں میں ایک نعرہ زبان زد عام تھا۔ وہ نعرہ یہ تھا کہ ‘ اے یروشلم اگر میں تمہیں بھلا دوں تو میں اپنے تن بدن سے محروم ہوجائوں’۔ مگر ٹرمپ اور نیتن یاھو کے خطاب میں بھی یہ واضح ہوگیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع کو سیاسی انداز میں نہیں بلکہ ایک فریق کی مذہبی سوچ سے دیکھتے اور اسے حل کرنے کے لیے ہلکان ہیں۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر ناجی البطہ کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو نے کھل کر یہودی مذہبی پہلو پربات کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں موجود انجیلی یہودی فرقے کو فلسطین میں آباد ہونا چاہیے کیونکہ انجیل میں یہویوں کو فلسطین میں آباد ہونے پر زور دیا گیا ہے۔
ٹرمپ اور نیتن یاھو نے اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مسیحی ۔ صہیونی ہمدردیوں اور جذبات کو استعمال کیا۔ حالانکہ دونوں اپنے اپنے ملکوں میں کرپشن، بد انتظامی اور دیگر مسائل کا شکار ہیں۔
یہودی مذہبی اصطلاحات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی تقاریر میں صدی کی ڈیل کے اعلان کے وقت جو اصطلاحات استعمال کی گئیں ان پر مذہبی چھاپ نمایاں ہے۔ انہوں نے القدس کے لیے ‘یروشلم’ مسجد اقصیٰ کے لیے’جبل ہیکل’ مغربی دریائے اردن، الخلیل شہر اور اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تعلق، فلسطینی پناہ گزینوں کی حق واپسی کی نفی اور یہودی ریاست کے تصور کو آگے بڑھانے پر اور ایسی اصطلاحات ہیں جو اس منصوبے کی مذہبی روح کو دوبارہ زندہ کرنے کی علامت ہیں۔
ڈاکٹر عمرو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاھو نے اپنے بیانات میں دریائے اردن کے مغربی کنارے میں یہودیوں کے حق کا دفاع کیا اور وادی اردن کو غصب کرنے کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں تورات کا حوالہ دیا کیونکہ تورات انجیل سے پہلے آئی ہے۔ تورات ہی مسیحی ۔ صہیونی تعلیمات کا ماخذ ہے۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ کے بجائے ‘معبد’ کی اصطلاح استعمال کی اور کہا کہ مسلمانوں کو اس میں عبادت کی اجازت ہوگی۔