اٹھائیس جنوری 2020ء کو اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے نام نہاد امن منصوبے صدی کی ڈیل کا اعلان کیا تو اس پر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ طے تمام معاہدے بہ شمول اوسلو سمجھوتے کے تمام معاہدے ختم کررہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عالم اسلام اور عرب اقوام سے اپیل کی گئی کہ وہ امریکا کے سنچری ڈیل منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے وزیر برائے سول امورحسین الشیخ نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ فلسطینی اتھارٹی سنہ 1993ء میں طے پائے اوسلو سمجھوتے سمیت تمام معاہدوں کو ختم کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ تاہم دوسری طرف عملا فلسطینی اتھارٹی نہ صرف اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس شعبے میں مدد کررہی ہے بلکہ امریکا کے صدی کی ڈیل منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے اس کی مدد گار اور سہولت کار ثبات ہو رہی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے قوم کی صفوں میں یکجہتی کے لیے کی جانے والی مساعی کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی شہریوں کی سیاسی بنیادوں پر پکڑ دھکڑ اور حراستی مراکز میں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے اور فلسطینیوں کے تعاقب میں اسرائیلی فوج کی بھرپور مدد کی جا رہی ہے۔
قول وفعل میں تضاد
تجزیہ نگار ابراہیم المدھون نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے عزم اور سیاسی بیانیے میں صاف تضاد ہے۔ محمود عباس کے قول و فعل میں بعد پایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدے ختم کرنے کے دعوے اپنی جگہ مگر عملا اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلی جنس ادارے قابض صہیونی ریاست کے جاسوس اداروں کے دست وبازو بنے ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے افسران براہ راست اسرائیلی ریاست کی وفادار میں کام کررہے ہیں۔ وہ اسرائیل کے نقشے میں رنگ بھرتے اور اسرائیلی فوج کی طرف سے دی گئی مہمات میں حصہ لیتے ہیں۔ حالانکہ فلسطینی نیشنل کونسل اور ایگزیکٹو کمیٹی دونوں اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے پر زور دے چکے ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں المدھون نے کہا کہ اس وقت غرب اردن میں اسرائیلی فوج کے خلاف پنجہ آزمائی کرنے والے فلسطینیوں کو رام اللہ اتھارٹی کی معاونت ملنی چاہیے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ فلسطینی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے اسرائیل کو تکلیف پہنچانے والے کسی بھی مزاحمتی عمل کو روکنے میں دشمن کی مدد کررہے ہیں۔
سیاسی جرم
غرب اردن میں شہریوں کی فریڈم کمیٹی کے چیئرمین خلیل عساف نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں سیاسی بنیادوں پر شہریوں کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے العساف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو صرف اس لیے حراست میں لینا کہ ان کا تعلق فلسطینی اپوزیشن جماعتوں سے ہے ‘سیاسی جرم’ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے جب کہ شہریوں کی گرفتاریاں اور سیاسی انتقام فلسطینی قوتوں کی صفوں میں پائی جانے والی خلیج کو مزید گہرا کررہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نہیں بدلی
تجزیہ نگار عبدالستار قاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے حوالے سے موقف میں تبدیلی کی بات خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کی ذمہ داریوں میں اسرائیلی ریاست کا دفاع شامل ہے۔
عبدالستار قاسم نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدوں میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گی کیونکہ اس طرح کے کسی بھی اقدام سے فلسطینی اتھارٹی کو مشکلات کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اپنا موقف نہیں بدل سکتی
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کےسربراہ محمود عباس کہہ چکے ہیں کہ وہ غیرمسلح ریاست چاہتے ہیں۔ وہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی مسلح جدو جہد کے بھی خلاف ہیں مگر ان کا یہ موقف فسلطینی قوم کے اور قومی وحدت کے خلاف ہے۔