چهارشنبه 30/آوریل/2025

الٹے لٹکائے جانے فلسطینی قیدی اسرائیلی عقوبت خانے میں شہید

جمعرات 27-جون-2024

غزہ کی پٹی سے تعلقرکھنے والے ایک فلسطینی، جسے ہی حال ہی میں ’سدی تیمان‘ نامی ایک بدنام زمانہ عقوبتخانے سے رہاکیا گیا تھا، نے حراستی کیمپ میں قیدیوں پر بدترین تشدد اور اذیتیں دےکرانہیں شہید کیے جانےکےدلخراش واقعات کا انکشاف کیا ہے۔

ولید انور الخلیلی، جسے حالہی میں سدی تیمان عقوبت خانے سے رہا کیا گیا تھا، نے عرب ٹی وی کو بتایا کہ وہاں کےقیدی تشدد کی شدت سے چیخ رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد اس وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں شہیدہوگئے ہیں۔

الخلیلی نے انکشاف کیا کہ’سدیتیمان‘میں تین قیدیوں کو ٹانگوں کے بل الٹا لٹکا کربدترین تشدد کا نشانہبنایا۔ انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو تفتیش کے دوران طویل گھنٹوں تک الٹا لٹکایا گیاتھا۔

الخلیلی نے بیان کیا کہ قابضفوجیوں نے اس کے ساتھ موجود زخمیوں کو مار ڈالا۔ جب مجھے گرفتار کیا تو 20 سے زیادہاسرائیلی فوجیوں نے مجھے مارا پیٹا”۔

انہوں نے مزید کہا کہ”قابض فوجیوں نے مجھے اور باقی قیدیوں کو بتایا کہ ہمارا انجام ’سدی تیمان‘حراستی کیمپ میں درد ناک موت ہے‘‘۔

جیلوں کے اندرسے چونکا دینے والی شہادتیں

فلسطینی اسیران کلب اور محکمہامور اسیران نے ان فلسطینی مرد اور خواتین قیدیوں کی شہادتوں کا جائزہ لیا جنہیں اسرائیلیقابض فوج کی جیلوں کے اندر منظم تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

قیدیوں کے نگران اداروں نےتشدد کے متاثرین کی حمایت کے عالمی دن کے موقع پرکہا کہ ان شہادتوں میں سب سے نمایاںشہادت "سدی تیمان” کیمپ میں زیر حراست صحافی محمد عرب کی تھی۔ جس کے وکیلنے حال ہی میں حراستی مرکز کا دورہ کیا تھا۔

قیدی "عرب” نےکہا کہ "کیمپ کی انتظامیہ نے قیدیوں کو 24 گھنٹے قید رکھا ہوا ہے۔ پچاس دن سےزیادہ عرصے سے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ہے۔ محمد عرب نے اپنے کپڑے نہیں بدلے۔صرف دورے سے پہلے اسے اجازت دی گئی کہ وہ اپنیپتلون تبدیل کرے۔ اس پورے عرصے میں وہ صرف ایک جیکٹ میں رہا جسے اس نے پچاس دنوں سےنہیں بدلا تھا۔

قیدیوں کے اداروں نے بتایاکہ زیر حراست افراد کو تشدد، بدسلوکی اور مختلف قسم کے حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے،جن میں جنسی حملے، عصمت دری سمیت تشدد کے دیگر حربے زیر حراست افراد کی شہادت کا باعثبنے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مارپیٹ، گالی گلوچ، تذلیل اور بدتمیزی کا سلسلہ نہیں رکتا اور نہ ہی کسی قیدی کو کسی دوسرےقیدی سے بات کرنے کی اجازت ہے۔ جو کوئی بات کرتا ہے اسے سخت مارا پیٹا جاتا ہے۔ یہاںتک کہ قیدی اپنے آپ سے بات کر رہے ہوں۔ وہ حمد و ثنا بیان کرتے ہوں یا کچھ وردکرتے ہوں تو بھی انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ انہیں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دیجاتی۔

قیدیوں پر ہر وقت پولیس کےکتے چھوڑے جاتے ہیں۔ ہر چار قیدیوں کو ایک منٹ کے لیے باتھ روم استعمال کرنے کی اجازتہے۔ جو قیدی اس وقت سےزیادہ لگاتے ہیں انہیں "سزا” دی جاتی ہے۔ وہ فرش پرسوتے ہیں اور اپنے جوتے تکیے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

جہاں تک نہانے کا تعلق ہےقیدیوں کی شہادتوں سے معلوم ہوا کہ جو وقت دستیاب ہے وہ ہفتے میں ایک منٹ کے لیے ہے۔دن میں سونا منع ہے جہاں تک کھانے کا تعلق ہے تو اس میں کھیرے یا ٹماٹر کے چند ٹکڑےہوتے ہیں۔ وہ کھانا ہے جو ان کو ہر وقت پیش کیا جاتا ہے، بیمار اور زخمیوں کے اعضاءکاٹ دیے گئے تھے۔ان کے اعضاء سے گولیاں بے ہوشی کے بغیر نکال دی گئی تھیں”۔

’عصیون‘جیل میں قیدیوں کے ایک گروپ کی گواہی میں جو تشدد اور تذلیلکے جرائم کا مرکز ہے نے بتایا کہ "بیمار قیدیوں میں سے ایک کئی بار بیہوش ہوا،تو قیدیوں نے سپاہیوں کو اس کی مدد کے لیے پکارا، لیکن وہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ کمروں میںگھس کرقیدیوں کو مارا پیٹا، ان کے کپڑے کمروںکے باہر پھینکے، انہیں کپڑے اتارنے پر مجبور کیا اور انہیں برہنہ حالت میں سخت سزادی گئی۔اس کے بعد جیل انتظامیہ کا ردعمل یہ تھا کہ اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیااور بے ہوش قیدی کی مدد نہیں کی گئی۔

گرفتاری کے لمحے کے بارےمیں زیر حراست افراد کی شہادتوں میں سے زیر حراست ایک شخص نے کہا کہ "قابض فوجنے آدھی رات کو اس کے خاندان کے گھر پر چھاپہ مارا۔انہوں نے اسے تھپڑ مارے، اسے پیٹھسے باندھ دیا، اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اسے چار گھنٹے تک فوجی گاڑی میں گھٹنوں کے بل بیٹھائےرکھا۔ اسے ہتھکڑیاں لگا کر پوری طاقت سے اس ہاتھوں کو پیچھے کھینچا جس کی وجہ سے وہفوجی گاڑی سے گرگیا۔ پھر سپاہیوں نے اسے جان بوجھ کر مارا اور ایسا کرتے رہے۔ اس کےکپڑے پھٹے ہوئے تھے اور اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔

ایک خاتون قیدی کی گواہیمیں اس نے کہا کہ "مجھے دھمکی دی گئیکہ میرے ساتھ عصمت دری کی جائے گی۔ پوچھ گچھ کرنے والے نے دوبارہ عصمت دری کی دھمکیدی اور کہا کہ مجھے برسوں تک قید کر دیا جائے گا۔ ہر وقت میں اپنے ہاتھوں اور پیروںپر دوہری ہتھکڑیوں سے جکڑا رہتا۔ وہ بہت تنگ تھیں، مجھے باتھ روم استعمال کرنے سے روکدیا گیا۔انہوں نے بغیر اجازت میری تصویر کھنچوائی۔ ہشارون جیل میں انتہائی سخت نظر بندی میں رکھا گیاتھا، خاتون گارڈز نے جان بوجھ کر میرے کپڑے باتھ روم کے دروازے پر ڈال دیے تھے۔ تلاشیکے بعد انہیں واپس لانے میں بڑی مشکل پیش آئی کیونکہ باہر محافظ موجود تھے۔

مختصر لنک:

کاپی