ارض فلسطین پر سنہ 1948ء کو جب نام نہاد صہیونی ریاست کے وجود نا مسعود کا اعلان کیا گیا تو اس وقت لاکھوں فلسطینی جو ہزاروں سال سے اس سرزمین پرآباد تھے اس وحشیانہ جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔
سنہ 1948ء کو صہیونی ریاست کے قیام کے وقت ظلم برادشت کرنے والے ہزاروں فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔ بہت سے بعد میں چل بسے۔ قیام اسرائیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے خال خال ہی آج زندہ بچے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں ایک معمر فلسطینیوں کی یادوں پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ میں ان فلسطینیوں کے حالات و وخیالات اور النکبہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق 90 سالہ سھیلہ صبحی الششتاوی نے بتایا کہ فلسطین میں ہمارے مکان کی عمر جسے ہمارے آبائو اجداد نے تعمیر کیا تھااسرائیل کی پوری عمر سے زیادہ تھی۔ مگر ہمیں وہ مکان چھوڑنا پڑا۔ الششتاوی کا تعلق الوعری خاندان کے ساتھ ہے۔
انتہائی افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے الششتاوی نے کہا کہ چند سال پیشتر ہم اپنے گائوں کی طرف جانے لگے مگر ہمیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ میرے گھر کی تصویر آج بھی میرے دماغ میں اسی طرح موجود ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ میرا گھر آج بھی میرے سامنے ہے۔ میرا دل بہت دکھی ہے۔ میں نے اپنا بچپن اسی گھر میںبتایا۔ میری خواہش ہے کہ میں زندگی میں ایک پھراپنا مکان دیکھ سکوں۔
سھیلہ الششتاوی اس سے قبل ایک کتاب’ سنہ 1948ء کے فلسطین کی یادیں’ کو ایک تفصیلی انٹرویو بھی دے چکی ہیں۔ وہ اس انٹرویو میں بھی فلسطین کے روایتی لباس میں ملبوس ہیں۔
آنکھوں دیکھا حال
مذکورہ کتاب کی تقریب رونمائی کے موقعے پر کئی معمر فلسطینی موجود تھے۔ انہوں نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔ کتاب کے مولف کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ کتاب کا مولف کون ہے کیونکہ اس کتاب میں جن لوگوں کی باتیں بیان کی گئی ہیں وہ زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔
الجزیرہ ڈاٹ نیٹسے بات کرتے ہوئے مولف نے کہا کہ ممکن ہے کہ کتاب پر اس کے مولف کانام ہونا چاہیے مگر یہ کتاب صرف اور صرف ان فلسطینیوں کے لیے مختص تھی جنہوںنے اپنےوطن میں یہودیوں کے لیے ایک ناجائز ریاست کو بنتے دیکھا۔
قصہ زندگی
کتاب ‘سنہ 1948ء کی یادیں’ کی تالیف میں ایک خاتون ڈاکٹر نیلی بھی معاونت کی۔ انہوںنے لکھا کہ ان کے والد بیت لحم سے ہیں جب کہ والدہ جرمن ہیں۔ نیلی کو فلسطینی تاریخ میں تخصص حاصل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں نے قیام اسرائیل کے وقت کے کئی قصے اور واقعات پڑھ رکھے ہیں۔ میں نے ان تمام واقعات کو قلم بند کرنے اور انہیں ایک دستاویز کی شکل دینے کی کوشش کی۔ میری توجہ فلسطینیوںکے استقامت، ان کی زندگی کی مشکلات، زندگی کی بقاء اور مشکلات ومصائب میں فلسطینیوں کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں نیلی نے بتایا کہ میں نے فلسطین میں قیام اسرائیل کے وقت فلسطینیوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں جو کچھ سن رکھا تھا وہ تمام باتیں میں متاثرین کی زبانی سننا چاہتی تھیں۔
ایک دوسری تجزیہ نگار مجدولین الغزاوی نے کہاکہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس میں سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے حالات و واقعات کے بارے میں حقائق پر مبنی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔