شام کے شمال مشرقی صوبے ادلب میں جہاں ایک طرف کئی ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرجنگ ہیں تو دوسری طرف وہاں پر آباد فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات بھی ناقابل بیان ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ادلب میں قائم یرموک پناہ گزین کیمپ کے فلسطینیوں کو جس قیامت کا سامنا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطینی آئے روز در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے اور ایک سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہونے کی مشکلات سے دوچارہیں۔
جنگ کی وجہ سے اب حالت یہ ہوچکی ہےکہ ان فلسطینیوں کا ایک دن کسی جگہ اور دوسرا دن کسی اور جگہ گذرتا ہے۔
یرموک پناہ زین کیمپ سے نقل مکانی کرنے والے ابو علی اور اس کے دوست ابو منذر اپنے خاندان کے ہمراہ مرکونہ سے ھجرت کرکے ترکی کی سرحد پر شمالی قصبے اطمہ میں عارضی طورپر خیمہ زن ہوئے ہیں مگر اس سے قبل وہ ‘الدانا’ نامی قصبے میں اپنے خاندانوں کے ہمراہ تھے۔ اس قصبے پر متحارب گروپوں کی طرف سے گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں مہاجرین کی عارضی رہائش گاہیں تباہ ہوگئیں۔ دو گولے ابو علی کےخیمے کےقریب بھی لگے تاہم اس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر خیمہ ناقابل رہائش ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وہاں سے نقل مکانی پرمجبور ہوگئے۔ اسی طرح ابو منذر کے خیمے کے قریب بھی گولے گرے اور وہ بھی وہاں سے نقل مکانی پرمجبور ہوگئے۔
ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ادلب کے مناظر بلیک کومیڈی سے ملتے جلتے ہیں۔ ابو علی نماز فجر کے لیے مسجد کی طرف نکلا تو قریب ہی اسے اس کے دوست ابو منذر کی گاڑی کھڑی تھی۔ ابو منذر نے ابو علی کو دیکھتے ہی کہا کہ’اے روز کے مہاجر کہاں جا رہے ہو؟’ اگرچہ یہ ایک مزاحیہ جملہ تھا مگر دراصل اس کے اندر وہاں کے حالات کی حقیقت پنہاں تھی۔ ابو علی اور دوسرے فلسطینیوں کے خاندان آئے روز ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں لگے رہتے ہیں۔
قدس پریس کے نامہ نگار کے مطابق ادلب میں ہردوسرے فلسطینی پناہ گزین کے ساتھ مسلسل نقل مکانی کا المیہ ہے۔ ان کی زندگی اورمستقبل جنگ کے گردو غبار میں گم ہوچکا ہے اور انہیں آئے روز کسی نئی جگہ کی تلاش کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔
اس نے بتایا کہ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ یہی المیہ ہے۔
ابو علی نے بتایا کہ گذشتہ کئی ماہ سے وہ مسلسل ایک سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ انہیں ادلب سے نقل مکانی کے بعد عفرین، اعزاز اور کئی دوسرے علاقوں میں نقل مکانی پرمجبور ہونا پڑا۔
ایک دوسرے فلسطینی ابو ثائر نبے کہا کہ وہ حلب سے نقل مکانی کرکے قاح کے مقام پر پہنچے ہیں۔ اب وہ عفرین کی طرف نقل مکانی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
ابوثائر کا کہنا تھا کہ ہم جہاں جاتے ہیں بمباری ہمارا پیچھا کرتی ہے۔ ہم اپنے ضروری سامان کو نہ تو فروخت کرپاتےہیں اور نہ ہی چھوڑ سکتے ہیں۔ اگر گھر کا سامان فروخت کرتے ہیں تو اس کی قیمت ردی کی چیزوں کے برابر بھی نہیں ملتی جب کہ بچوں کی تعلیم اور ان کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے۔ بیماروں کے لیے علاج کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔
شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے کام کرنے والی کمیٹی کے مطابق شمالی ادلب سے 260 فلسطینی خاندان نقل یرموک کیمپ سے نقل مکانی کے بعد سرمدا، دانا، اطمہ، عقربات اور عطاء نامی قصبوں میں رہائش پر مجبور ہیں۔