اسرائیلی حکام کی طرف سے فلسطین کے 15 صحافیوں اور قلم کاروں کو مسلسل پابند سلاسل رکھا ہوا ہے۔ ان میں سب سے پرانے فلسطینی صحافی قیدی محمود عیسیٰ ہیں جن کا تعلق عناتا قصبے سے ہے اور وہ سنہ 1993ء سے پابند سلاسل ہیں۔ محمود عیسیٰ کو اسرائیلی عدالت کی طرف سے ایک بار عمر قید اور46 سال اضافی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
کلب برائے اسیران کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ صحافیوں کی پکڑ دھکڑ، ان کے کیمرے اور دیگر آلات چھیننے اور انہیں زدو کوب کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کلب کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غرب اردن کے شمالی شہر نابلس سے تعلق رکھنے والے صحافی مجاھد بنی مفلح کو رام اللہ سے نابلس جاتے ہوئے اس وقت حراست میں لیا گیا جب اس کی اہلیہ اور بچے بھی اس کے ہمراہ تھے۔
زیرحراست صحافیوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ اسیرہ میس ابو غوش کو المسکوبیہ حراستی مرکز میں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا مسلسل ایک ماہ تک نشانہ بنایا گیا۔
صحافی یزن ابو صلاح کے خلاف آج سے مقدمہ چلایا جائے گا جب کہ چار دیگر صحافیوں سامح الطیطی، میس ابو غوش، مصطفیٰ السخل اور القسام البرغوثی پر بھی المسکوبیہ ٹارچر سیل میں تشدد کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی کارروائی کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل دیگر فلسطینیوں میں محمود عیسیٰ، باسم خندقجی، احمد الصیفی، منذر مفلح، احمد العرابید، عزت الشنار، عامر ابو ھلیل، صالح العمور، سامح الطیطی، قسام البرغوثی، مصطفیٰ السخل، یزن ابو صلاح، مجاھد بنی مفلح، میس ابو غوش اور بشریٰ الطویل شامل ہیں۔