جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی قوم تیسری ھجرت کے لیے تیار!

پیر 2-مارچ-2020

حال ہی میں جب ترکی نے پناہ گزینوں کے لیےیورپ کی طرف سرحدیں کھولنے اور روکے گئے مہاجرین کے سمندر کو یورپ میں چھوڑںےکا اعلان کیا تو اس کے بعد ترکی کی سرحد پر شامی اور فلسطینی مہاجرین کا ایک جم غفیر جمع ہوگیا ہے۔

ترکی کی شمال مغربی سرحدیں یورپی ممالک سے ملتی ہیں اور اس وقت بڑی تعداد میں مہاجرین یورپ کے سفر کے لیے کوچ کررہے ہیں یا کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔

ترکی میں اس وقت ایسے ہزاروں فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں جو ترکی میں غیرقانونی طورپر شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے موجود ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو یورپ جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ خواب وہ معیشت کی بہتری کے لیے دیکھتے ہیں مگر یورپ کا سفر اتنا آسان نہیں۔ اس راستے میں قدم قدم پر مشکلات ہیں اور یورپ پہنچنے کے لیے جان پر کھیلنے کے مترادف ہے۔

نا مساعد حالات

شام سے نقل مکانی کرکے ترکی آنے والے ایک فلسطینی پناہ گزین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ گذشتہ دو سال سے انتہائی نا مساعد حالات میں استنبول میں قیام پذیر ہے مگر اس کے حالات بہتر نہیں ہو سکے۔

اس نے بتایا کہ میں نے نقل مکانی کا سفرجنوبی دمشق کے الیرموک پناہ گزین کیمپ شمالی شہرادلب کی سفر شروع کیا۔ وہاں سے میں نے استنبول کا سفر شروع کیا مگر میں ترکی میں اقامہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ترکی میں غیرقانونی طریقے سے داخل ہوا تھا۔

اس نے بتایا کہ میں اور کئی میرے دوسرے ساتھی یورپ جانے کے انتظار میں تھے۔ ہم میں سے بیشتر بے روزگار ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والے اسمگلر ہیں جو لوگوں کو یورپ بھیجتے ہیں مگروہ بھی ہمیں یورپ کی طرف لے جانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

اس گم نام فلسطینی سے جب پوچھا گیا کہ آیا اس کے سامنے یورپ جانے کے لیے کون کون سے راستے ہیں تو اس کا کہنا تھا کہ یورپ کی طرف انسانی اسمگلنگ کے کئی روٹ ہیں۔ بلغاریہ اور یونان کے روٹ سے خشکی کے راستے یورپ پہنچا جاسکتا ہے۔ ایک یونانی جزائر کا راستہ ہے مگر وہ بہت زیادہ پرخطر ہے کیونکہ اس راستے سے سمندر سے گذرنا پڑتا ہے۔

انتظار کی کیفیت

ایک فلسطینی تجزیہ نگارعمارالقدسی نے جو خود بھی الیرموک پناہ گزین سے ھجرت کرکے ترکی آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی شام سے بڑی تعداد میں شہری ترکی آئے۔ وہ بے تابی کے ساتھ ترکی کی طرف سے یورپ کی طرف نقل مکانی کی اجازت کے منتظر ہیں۔

عمار القدسی کا کہنا ہے کہ اس وقت شام اور ترکی کی سرحدیں مکمل طور پر بند ہیں۔ اگر یہ سرحدیں کھول دی جاتی ہیں تو مہاجرین کا ایک سمندر یورپ کی طرف نکل سکتا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیکڑوں فلسطینی اور شامی خاندان اس وقت یونان کی سرحد پر واقع کی ترکی کے شہر ادرنہ میں ہیں۔ جب انہیں یہ خبر ملی ہے کہ انقرہ نے پناہ گزینوں کے لیے یورپ کے راستے کھول دیے ہیں تو ادرنہ میں پناہ گزینوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پولیس انہیں وہاں آنے سے نہیں روک رہی۔

سخت اقدامات

ادھر دوسری طرف ترکی کے پڑوسی ملک یونان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترکی سے پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے سخت انتظامات کیے گئےہیں۔

ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ادلب میں لڑائی جاری رہنے اور حالات بدستور خراب رہنے کے باعث یورپ کی طرف نقل مکانی کی لہر شدت اختیار کرسکتی ہے۔

لکسمبرگ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ترکی کی طرف سے پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف چھوڑنے کا اعلان غیر متوقع نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شمالی شام میں ترک فوجیوں پر خونی حملہ اور یورپی یونین کی طرف سے پناہ گزینوں کے معاملے میں کیے گئے وعدوں پرعمل درآمد نہ کرنے کے بعد ترکی کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا۔

خیال رہے کی ترکی نے اس وقت 40 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی جاری رکھی ہوئی ہے۔ شام کے علاوہ دوسرے ملکوں کے پناہ گزین بھی ترکی میں مقیم ہیں مگر انقرہ ماضی میں ان پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف جانے سے روکا جاتا رہا ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے ترکی کےساتھ طے پائے معاہدے کے تحت پناہ گزینوں کو امداد فراہم کی جاتی رہی ہے۔

نقل مکانی کے راستے

ایک فلسطینی تجزیہ نگار حمادہ حمید کا کہنا ہے کہ ترکی میں اس وقت بہت سے فلسطینی نوجوان مقیم ہیں جو ترکی کی سرحد کی طرف بڑھ رہےہیں۔

ایک سوال کے جواب میں حمید نے کہا کہ نوجوانوں کی اکثریت یورپ جانا چاہتی ہے۔ ان کے سامنے یورپ جانے کے لیے کئی راستے ہیں۔ ادرنہ شہر سے یونان داخل ہو کر یورپ پہنچا جاسکتا ہے۔ مگر یونانی پولیس اور بارڈر سیکیورٹی حکام سرحد عبور کرنے والوں پر وحشیانہ تشدد کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی پناہ گزین زخمی ہو کر اسپتال  داخل کیے گئے۔

شام میں موجود 2400 فلسطینی پناہ گزین خاندانوں میں 400 خاندان یورپ کی طرف نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی