جمعه 15/نوامبر/2024

صہیونی جنگی مجرم ‘آئی سی سی’ کے قفس کے دروازے پر!

ہفتہ 7-مارچ-2020

ایک ایسے وقت میں جب دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت ‘انٹرنیشنل کریمینل کورٹ’ (آئی سی سی) نے افغانستان میں امریکی فوج کے ہاتھوں نہتے شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے منظم ریاستی جنگی جرائم کی بحث بھی دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ لوگ یہ سوال پوچھتےہیں کہ آیا دی ہیگ کے قفس کے دروازے صہیونی جنگی مجرموں کے لیے کب کھلیں گے؟۔

امریکا کے صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) کی حکمرانی کے تحت امریکی انتظامیہ سے "اسرائیل” کو ملنے والی مکمل ریاستی حمایت کے باوجود یہ سوال متنازع بنا ہوا ہے کہ  کیا صہیونی لیڈر جنگی جرائم اور بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب کرنے کے جرم میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پنجرے میں داخل ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں؟۔

اسرائیلی حکومت کے اٹارنی جنرل  "ایوہائی منڈلبلٹ” نے کچھ دن قبل اخبارات میں شائع ایک مضمون میں امکان ظاہر کیا تھا کہ اسرائیل کو مستقبل قریب میں اس عالمی عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات میں قانونی چارہ جوئی کی لہر کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ اسرائیلی قیادت پر فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم کے الزامات کی ایک لمبی چوڑی فہرست بین الاقوامی عدالت میں موجود ہے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت میں پراسیکیوٹر کے نمائندے  فتوؤ بینسودا نے ، 2019 کے آخر میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل اور مشرقی بیت المقدس اور غزہ کی پٹی کے علاوہ مغربی کنارے میں جنگی جرائم کے ارتکاب کی تحقیقات کھولنا چاہتے ہیں۔

فلسطین میں اسرائیلی لیڈروں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کے اندر بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب کیا ہے ، یعنی "جنگی جرائم – نسل کشی – نسلی صفائی ،قتل وغارت گری – نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم”  جیسے جرائم شامل ہیں۔ روم کی اس عالمی عدالت نے ان تمام الزامات کو ایک فہرست کی شکل میں کارروائی اور تحقیقات کے لیے منظور کررکھا ہے۔

بین الاقوامی فوجداری قفس

بین الاقوامی فوج داری عدالت میں "اسرائیل” کی پیروی کرنے کا معاملہ ایک خاص بات پرمنحصر ہے جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ ہفتے قبل بیرون ملک فلسطینیوں کی نمائمدہ رہ نمائوں نے مشہور کانفرنس میں قانونی پٹیشن پر دستخط کیےجسے بعد ازاں فوج داری عدالت میں پیش کیا گیا۔
بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کے لئے مشہور کانفرنس نے زور دے کر کہا کہ فلسطین ایک خودمختار ریاست ہے اور اب بھی فلسطینی عوام فلسطین کی سرزمین پر یہ خودمختاری کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خودمختاری ان کی سرزمین پر قبضے کے واقعہ یا فلسطینی اتھارٹی کی عدم موجودگی کی نفی نہیں کرتی۔
ایک فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالکریم شبیر کہتے ہیں کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کے پاس اسرائیلی لیڈروں کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے ’47’ درخواستیں جمع کی  گئی ہیں۔ ان میں سے چند ہفتے قبل  45 درخواستیں قبول کی گئیں اور دو کو مسترد کردیا گیا۔ صرف دو درخواستوں کا مسترد کیا جانا اور 45 کی منظوری نے صہیونی ریاست کو چونکا کر رکھ دیا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس قابض صہیونی ریاست نے صہیونی پراسیکیوٹر کو فوری طور پر جنیوا بھیجیا اور اب اس نے ایک میمو پیش کیا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت مقبوضہ اراضی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے مقدمات کھولنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے عالمی عدالت میں قانونی چاہرہ جوئی سے بچنے کے لیے ہنگری، جرمنی اور دوسرے ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔

قانونی ماہر صلاح عبد العاطی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر نے حال ہی میں ایک سنجیدہ راستہ اختیار کیا ہے جس نے صہیونی  رہ نماؤں ایک نئی پریشانی اور مشکل میں ڈال دیا۔

مقدمات اور قانونی چارہ جوئی

سنہ 2009 سے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے قابض اسرائیلی ریاست کے جرائم کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمات درج کرنا شروع کیے لیکن اس دن وہ فوج داری عدالت کی رکن نہیں تھی اور اسے مسترد کردیا گیا لیکن بعد میں وہ اقوام متحدہ کی مبصر رُکن بننے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو عالمی عدالت میں شکایات درج کرانے کا اختیار مل گیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نومبر 2012 میں اپنے 67 ویں اجلاس میں  فلسطینی مندوب کو ایک غیر مبصر رکن کے طورپر قبول کیا۔ بیشتر ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی مگر 9 ملکوں نے اس کی مخالفت کی۔

سنہ 2010 میں  ‘کدیما’ پارٹی کے سربراہ اور اسرائیل کی سابق وزیر خارجہ  زیپی لیونی نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ ان کے خلاف غزہ اور لبنان میں جنگی جرائم کے الزامات  میں گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔وہ ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھیں۔ لیونی کو گرفتاری سے بچانے کے لیے اسرائیل نے وسیع پیمانے پر سفارتی چینلز اور بااثر بین الاقوامی حلقوں سے رابطے استعمال کرنا شرو کیے جس کے نتیجے میں وہ گرفتاری سے بچ گئیں۔

ڈاکٹر شبیر کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی عدالت میں مقدمات کے لیے طویل وقت کی ضرورت ہے۔ لہذا فلسطین سے اسرائیل کے خلاف شکایت درج کروانے والے شخص کو صبر کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے  طے شدہ تمام طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر اسرائیل عالمی عدالت سے تعاون نہیں کرتا توتعاون سے انکار صہیونی لیڈروں کی عالمی پولیس اور انٹرپول کے ذریعے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی