اسرائیل کی دو درجن کے قریب جیلوں میں اس وقت سات ہزار کے لگ بھگ فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ صہیونی زندانوں میں قید فلسطینیوں سے ناروا سلوک کوئی نئی بات نہیں مگر حال ہی میں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والے کرونا وائرس کے پھیلنےکے بعد اسرائیلی عقوبت خانوں میں فلسطینی قیدیوں کی زندگی کو نئے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
بعض اخباری اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور جیل انتظامیہ نے جیلوں میں فلسطینی اسیران کو کرونا وائرس سے بچانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا ہے۔
فلسطینی شہریوں بالخصوص اسیران کے اقارب اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صہیونی زندانوں میں قید فلسطینیوں کو کرونا سے بچانے کے لیے کوئی باقاعدہ کام نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کے حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اسرائیلی جیلوں میں انتظامیہ کی طرف سے انسداد کرونا کے لیے کوئی معقول انتظامات کیے ہیں یانہیں۔
جیسے جیسے فلسطینی علاقوں میں کرونا کا دائرہ پھیل رہا ہے ایسے ہی فلسطینیوں کے جیلوں میں قید اپنےپیاروں کے حوالے سے خدشات بھی مسلسل بڑھ رہےہیں۔
فلسطینی اسیران کمیٹی کے چیئرمین امجد ابو عصب نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینیوں کے اقارب کی کرونا کی وجہ سے پریشانی اور تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اسیران میڈیا سینٹر سےبات کرتے ہوئے ابو عصب نے کہا کہ حال ہی میں ان کی ملاقات کچھ ایسے فلسطینی اسیران سے ہوئی جنہوں نے اسرائیلی جیلو میں قید اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حکام نے جیل پہنچنے کے بعد ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا اور کہا کہ تم لوگ جیلوں میں کرونا وائرس لے کرآئے ہو۔
اس موقعے پر اسرائیلی حکام نے جیل میں آنے والے ملاقاتیوں سے خالی کاغذوں پر دستخط کرائے۔ اس کے علاوہ ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ غرب اردن کے شہروں سے آئے ہیں یا بیرون ملک سے لوٹے ہیں۔
ابو عصب نے کہا کہ ہمیں اور اسیران کے اقارب کو سب سے زیادہ پریشانی ان جیلوں یا ایسے مقامات پر واقع جیلوں کے بارے میں ہے جو پہلے ہی کرونا کے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ پریشانی ایک دوسری وجہ اسرائیلی جیل حکام کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ برتے جانے والے ناروا سلوک اور بیماریوں کے علاج میں مجرمانہ غفلت ہے۔
فلسطینی شہریوں کا کہنا ہےکہ صہیونی ریاست کی جیلوں میں کرونا کے پھیلنے کے بہت زیادہ خطرات موجود ہیں کیونکہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ڈالے گئے ہیں۔ انہیں دی جانے والی خوراک غیرمعیاری اور مضر صحت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ فلسطینی اسیران کے کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
ڈاکٹروں کا موقف
اسرائیلی جیلوں میں قید رہنے والے سابق اسیران اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیلی زندانوں میں فلسطینی قیدیوں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں مگر یہ جیلیں چونکہ بند ہیں۔ اس لیے وہاں تک کرونا وائرس کے پہنچنے کے امکانات کم ہیں۔
سابق اسیر اور ڈاکٹر سمیر القاضی نے اسیران میڈیا سینٹر کو بتایا کہ کرونا اسپرے سے پھیلتا ہے۔ یہ ہوا سے نہیں پھیلتا۔ یہ صرف اسی صورت میں کسی شخص کو منتقل ہوسکتا ہے اگر وہ کسی ایسے مریض کو چھوئے جو پہلے سے کرونا کا شکار ہو۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی کرونا سے دور ہیں مگر ان کی حفاظت کے لیے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ جیلوں میں صفائی کا انتظام کیا جانا چاہیئے۔ قیدی اپنی صفائی کا خاص اہتمام کریں۔ ٹھنڈے پانی سے ہاتھ دھوئیں۔ زیادہ سے زیادہ وضو میں رہیں اور نمازوں کے ساتھ ساتھ قیام اللیل کریں۔
ڈاکٹر القاضی کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے بہ کثرت استعمال سے بھی کرونا کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے مگر اسرائیلی زندانوں میں پھلوں اور سبزیوں کا گذر بھی نہیں ہوتا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کرونا سے بچائو کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قیدی جب ایک دوسرے کے قریب بیٹھیں تو ہاتھ نہ ملائیں۔ اپنی جسمانی صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھیں۔