فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر قلقیلیہ کے نواحی علاقے اماتین کی رہائشی 21 سالہ انسام شواہنہ نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا مگر اس کے اس مشن کی راہ میں اسرائیلی ریاست نے کیسے رکاوٹیں کھڑی کیں؟۔
انسام شواھنہ کو چار سال قبل اسرائیلی فوج نے کدومیم یہودی کالونی کے قریب سے اس وقت حراست میں لیا جب وہ نابلس سے قلقیلیہ لوٹ رہی تھیں۔
خیال رہے کہ شواھنہ نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں 97 فی صد نمبرات کے ساتھ شاندار کامیابی کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد وہ اپنا تعلیمی مشن جاری کھنے کے ساتھ ساتھ میدان صحافت میں اتر آئیں۔ تاہم صہیونی حکام نے اسے گرفتار کرکے پانچ سال قید کی سزا دلوائی اور اس کا صحافتی کیریئر برباد کرڈالا۔
جُدائی اور فراق کا غم
انسام شواھنہ کے خاندان کے لیے اپنی جواں سال بیٹی کی مسلسل چار سال پرمشتمل جدائی کی تکلیف کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ انسام اپنے پانچ بہن بھائیوں میں واحد بچی ہیں جو صہیونی ریاست کے زندانوں میں پابند سلاسل ہیں مگر اس کے والدین اور دیگر اہل خانہ نے شواھنہ کی گرفتاری اور اس کی سزا پرکبھی اپنے دکھ کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ یہ سب کچھ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کررہےہیں۔
اسیرہ شواھنہ کی ماں نے اسیران میڈیا سینٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شواھنہ کی جدائی کو وہ محسوس کرسکتے ہیں۔ شواھنہ صرف میری بیٹی ہی نہیں بلکہ وہ میری بہن اور سہیلی بھی ہیں۔
شواھنہ اس وقت ہمارے خاندان سے الگ تھلگ دشمن کی قید میں پابند سلاسل ہیں۔ وہ جب یونیورسٹی میں پڑھنے جاتی تھی اس وقت بھی میں اسے بہت بے تابی اور بے صبری کے ساتھ اس کا گھر لوٹنے کا انتظار کرتی تھی۔
شواھنہ کی ماں کا کہنا ہے کہ بیٹی کی گرفتاری کے بعد اس کی جدائی کو بہت زیادہ محسوس کرتے تھے مگر اب ہم اس کی جدائی کے عادی ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شواھنہ کی گرفتاری کے بعد اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور مسلسل 20 بار اس کے کیس کی سماعت ملتوی کی گئی۔ اس کے بعد اسے اسرائیل کی فوجی عدالت سالم نے شواھنہ کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔
انسان کی کامیابی
اسیرانسام شواھنہ کی ماں کا کہنا ہے کہ جیل میں قید کے دوران بھی انسام شواہنہ نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس نے جیل کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھی۔ اس دوران اس نے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔ جیل میں انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی مدد اور رہ نمائی کا فریضہ انجام دیا۔ اس دوران اس نے صحافت کے متعدد کورس بھی کیے اور اپنے صحافتی مشن کے ساتھ کسی نا کسی شکل میں جڑی رہی۔
اسیرہ کی ماں کا کہنا ہے کہ انسام جیل کے مشکل حالات کے باوجود اس کی بیٹی بہادر اور پرعزم ہے۔ اس کے حوصلے بلند ہیں۔ جب بھی اس کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی اس نے چہرے پرکوئی پریشانی ظاہر نہیں کی بلکہ اس کے چہرے ہر طمانیت واضح تھی۔