یہ 22 مارچ سنہ 2014ء کی صبح نماز فجر کا وقت تھا کہ فضاء میں اسرائیل کے جنگی طیاروں کی گرج دار آواز نے غزہ کے باوسیوں کو خوف و ہراس میں ڈالا دیا کیونکہ عموما اس وقت میں طیاروں کا فضاء میں نکلنا اس بات کا اشارہ تھا کہ صہیونی درندے کسی خاص ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے نکلے ہیں۔
کچھ ہی دیر بعد غزہ کی صبرہ کالونی کی مسجد مجمع الاسلامی کے احاطے میں تین میزائل گرے اور اگلے ہی لمحے یہ خبر جنگ کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ فلسطینیوں کے روحانی پیشواء اور فلسطینی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے بانی وسربراہ الشیخ احمد یاسین کو ان کے ساتھ رفقاء سمیت شہید کردیا گیا ہے۔ میزائل حملے میں شہید کے دو بیٹے شدید زخمی ہوئے ہیں۔
ایک ایک بار پھریہ سیاہ تاریخ صہیونی سیاہ کاریوں کو زندہ کرتے ہوئے گردش لیل ونہار کا سفر کرتے ہوئے اسی مقام پرآن پہنچی ہے۔ بائیس مارچ کا دن آتے ہی فلسطینی قوم کے دل ایک بار پھرزخمی ہوجاتے ہیں۔ مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ فلسطینی قوم آج بھی اپنے روحانی پیشوا الشیخ احمد یاسین کے اسوے اور فکر وخیال کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ شیخ کی روح یہ دیکھ اور سن کر ضرور آسودہ ہوتی ہوگی کہ جسمانی طورپر الشیخ یاسین اگرچہ فلسطینی قوم میں نہیں رہے ہیں ان کی فکر نہ صرف پوری طرح زندہ جاوید ہے بلکہ اس وقت غاصب ریاست کی خلاف تحریک انتفاضہ القدس کی شکل میں پورے آب وتاب پر ہے۔
شاید صہیونیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک معذور اور جسمانی طورپر مفلوج مگر فلسطینیوں کی ہردلعزیز ہستی کو شہید کرکے بڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ آج صہیونی دشمن بھی ماننے پر مجبور ہے کہ ہم نے ایک شیخ احمد یاسین شہید کیا تھا مگر فلسطین کے ہرگھر میں شیخ یاسین موجود ہے۔ فلسطینی قوم نے صہیونی دشمن کو یہ پیغام اسی روز دے دیا تھا جب شیخ کو شہید کیا گیا۔ غزہ کی پٹی میں 22 مارچ 2004ء کو چالیس بچوں نے جنم لیا اور ان کے ماں باپ نے اپنے بچوں کے نام اپنے روحانی پیشوا الشیخ احمد یاسین شہید سے منسوب کرتے ہوئے شیخ یاسین رکھ دیے تھے۔ یہ طرز فکر اس بات کا غماض تھا کہ فلسطینی قوم سے ان کے دل وجان سے پیارے روحانی پیشوا کو چھینا جاسکتا ہے مگر ان کی فکراور تعلیمات پرچلنے سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔
پیدائش اور ابتدائی زندگی
شیخ احمد یاسین 1938ء میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت فلسطین برطانوی سامراج کے زیرتسلط تھا۔ اس وقت سے ہی ان کے تمام نظریات اور تصورات اس توہین و حزیمت پر استوار ہونے لگے جس کا فلسطینیوں کو شکست کے بعد سامنا تھا۔
بچپن میں ایک حادثہ کے نتیجہ میں وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے لیے وقف کر دی تھی۔
انہوں نےمصر کے دارالحکومت قاہرہ سے تعلیم حاصل۔ قاہرہ اس وقت اخوان المسلمون کا مرکز تھا۔ یہ دنیائے عرب کی پہلی اسلامی سیاسی تحریک تھی۔
یہیں پر ان کا یہ عقیدہ راسخ ہوتا چلا گیا کہ فلسطین اسلامی سرزمین ہے اور کسی بھی عرب رہنما کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے کسی بھی حصہ سے دستبردار ہو۔
اگرچہ فلسطینی انتظامیہ سمیت عرب رہنماؤں سے ان کے تعلقات استوار رہے تاہم ان کا یہ راسخ عقیدہ تھا کہ "نام نہاد امن کا راستہ امن نہیں ہے اور نہ ہی امن جہاد اور مزاحمت کا متبادل ہو سکتا ہے‘‘
الشیخ احمد یاسین کا آبائی شہر عسقلان تھا،جہاں وہ سنہ 1936ء کو جورہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ابھی ان کی عمر پانچ سال نہیں ہوئی تھی کی والد ماجد انتقال کرگئے۔
سنہ 1948ء کو جب ارض فلسطین میں ایک صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تو صہیونی آفت عسقلان شہر پربھی ٹوٹی جہاں سے 12 سالہ احمد یاسین اپنے کئی دوسرے عزیزواقارب سمیت فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی بے دخل کردیے تھے۔ الشیخ احمد یاسین نے اپنے بچپن کے اس دور میں قیام اسرائیل کے دوران نہتے فلسطینیوں کو گاجرمولی کی طرح کٹتے دیکھ رکھا تھا۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ انہوں نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اپنی زندگی وقف کرتے ہوئے غاصب صہیونی ریاست کے خلاف جدو جہد شروع کردی تھی۔
بھوک اور غربت کے کڑوے ایام
جب شیخ احمد یاسین شہید اور ان کے پورے خاندان کو عسقلان شہر سے غزہ بے دخل کردیا گیا تو شیخ اس وقت اسکول میں پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ عمر اگرچہ زیادہ نہ تھی مگروہ اپنی عمر اور تعلیم سے کہیں آگے سوچتے۔ شاید یہ ملکہ انہیں قدرت کی جانب سے اس لیے عطا کیا گیا تھا کہ انہیں آگے چل کرپوری فلسطینی قوم کی قیادت کرنا تھی۔
ابتدائی زندگی کے دوران جب انہیں غزہ کی پٹی کے پناہ گزین کیمپ میں ڈال دیا گیا تو وہ ان کی زندگی کے انتہائی کٹھن ایام تھے کیونکہ اہل کیمپ کو کئی کئی دن کھانے کو کچھ نہ ملتا۔ فاقوں سے نڈھال بچے، بوڑھے اور علاج معالجے سے محروم مریض سسک سسک کرجان دیتے۔ سنہ 1950ء میں اسی غربت نے شیخ احمد یاسین کو تعلیم چھوڑ کرغزہ کی پٹی میں ایک ہوٹل میں برتن دھونے اور ویٹر کا کام کرنا پڑا۔ الشیخ احمد یاسین مجبور تھے کہ وہ اپنے خاندان کے سات افراد کا پیٹ کیوں کرپال سکتے ہیں مگر انہوں نے تعلیم چھوڑ کر کام کاج اور محنت مزدوری کو ترجیح دی۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں بحال کردی تھیں۔
حادثہ جس نے زندگی بدل دی
الشیخ احمد یاسین شہید نہایت چاک وچوبند اور تیز طرار لڑکے تھے جو مقامی سطح پرکھیلے جانے والے اہم کھیلوں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے۔ ایسا ہی ایک کھیل ان کے لیے زندگی بھر کا روک بن گیا جب سنہ 1952ء میں کھیل کود کے دوران چھلانگ لگانے سے ان کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یہ حادثہ اس قدر خوفناک ثابت ہوا کہ 45 دن تک پلستر میں رکھنے کے بعد جب ان کی گردن کی پٹی کھولی گئی تو وہ پوری زندگی کے لیے مفلوج ہوچکے تھے۔
ان کے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہونے کے ساتھ ان کے جسم کے دوسرے حصوں پربھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ جب فلسطینی تحریک آزادی کے دوران الشیخ احمد یاسین شہید کو اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لیا تو دوران حراست انہیں ٹارچر کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کی دائیں آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔ بد ازاں اسیری نے ان کی سماعت اور گردوں کو بھی بری طرح متاثر کیا کیونکہ جیل میں ان کی دیکھ بحال کرنے والا کوئی نہ تھا۔
سیاسی سرگرمیاں
جسمانی معذوری نے الشیخ احمد یاسین کے حصول علم کے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ سنہ 1957ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان بھی پاس کرلیا۔سنہ 1956ء میں جب غزہ کی پٹی کی سرحدوں کی نگرانی کی خاطر اسرائیل کی جانب سے جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا تو الشیخ احمد یاسین شہید نے اپنے رفقاء کو جمع کرکے اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ یہ تحریک ایک اعتبار سے ان کی زندگی کی سیاست کا آغاز تھا۔
الشیخ احمد یاسین اپنی معذوری کے باوجود لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین بھر میں ان کے معتقدین پروانوں کی طرح الشیخ احمد یاسین کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ سنہ 1965ء میں پہلی بار انہیں مصری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حراست میں لیا جس کے بعد وہ مصر کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں متعارف ہونے لگے۔ انہیں مصر کی اخوان المسلمون کا طرف دار اور حامی ہونے کے الزام میں ایک ماہ تک قاہرہ کے ایک عقوبت خانے میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ حالانکہ اس وقت شیخ احمد یاسین کا اخوان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
الشیخ کہتے ہیں کہ:مصر میں میری حراست نے میری زندگی پرگہرے اثرات ڈالے۔ میرے اندر ظلم سے نفرت کئی گنا بڑھ گئی۔ میرا اس بات پریقین بڑھ گیا کہ آئینی حکومت اور اتھارٹی وہی ہوسکتی ہے جو عدل و انصاف کی بنیاد پرقائم کی گئی اور انسانی آزادیاں اس کا ایمان ہو۔
اسرائیل کی جانب سے تعاقب
الشیخ احمد یاسین کی اسرائیلی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتوں کی کہانی طویل اور نہایت دلخراش ہے۔ اسرائیل نے انہیں پہلی مرتبہ سنہ 1982ء میں حراست میں لیا۔ ان پرعسکری تنظیم تشکیل دینے اور اسلحہ رکھنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور معذور شیخ یاسین کو 13 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، مگر سنہ 1985ء کو اسیری کے تین سال بعد فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے ایک معاہدے کے تحت انہیں رہا کردیا گیا۔
حماس کی تاسیس
سنہ 1987ء کو الشیخ احمد یاسین شہید اور مصر کی اخوان المسلمون کی تعلیمات سے متاثر فلسطینی شخصیات نے غزہ کی پٹی میں ایک نئی تنظیم کی تشکیل سے اتفاق کیا۔ اس تنظیم کا ماٹو صہیونی دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار کرنا قرار پایا اور فلسطینی قیادت نے اس کا نام’’اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘ رکھا جسے اختصار کے ساتھ ’حماس] کے نام سے پکارا جانے لگا۔ الشیخ احمد یاسین کے دوسرے اہم کارناموں میں پہلی تحریک انتفاضہ کو جلا بخشنا بھی شامل ہے۔ انہوں نے فلسطین میں تحریک انتفاضہ مساجد میں بھی ایک روحانی پیشوا کے طورپر اپنے اثرات چھوڑے۔
فلسطین میں سیاسی اور مزاحمتی سرگرمیوں پر صہیونی دشمن کو سخت پریشانی لاحق تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ہر وقت الشیخ احمد یاسین کے تعاقب میں رہتا۔ اگست سنہ 1988ء کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں شیخ احمد یاسین شہید کے گھرپرچھاپہ مار کر گھر میں توڑپھوڑ کی جس کے بعد الشیخ یاسین کو غزہ سے لبنان بدر کرنے کی دھمکی دی گئی۔ جب فلسطین میں اسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں یہودی فوجیوں کی ہلاکتوں اور دشمن کے ایجنٹوں کو ٹھکانے لگانے کا سلسلہ زور پکڑ گیا تو صہیونی فوج نے 18 مئی 1989ء کو غزہ میں حماس کے سیکڑوں کارکنوں اور رہ نماؤں کو وحشیانہ کریک ڈاؤن کے دوران حراست میں لے لیا۔
چھ اکتوبر سنہ 1991ء کو اسرائیل کی ایک فوجی عدالت نے الشیخ احمد یاسین شہید کو اسرائیلی فوجیوں کے قتل اور اغواء پراکسانے کے الزام اور حماس کے قیام کی پاداش میں 15 سال قید کی سزا سنا دی۔
رہائی کی کوششیں
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے الشیخ احمد یاسین اوردوسرے شہداء کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کے لیے کوششیں تیز کردیں۔ 13 دسمبر سنہ 1992ء کو فلسطینی مجاھدین نے بیت المقدس کے قریب سے ایک اسرائیلی فوج کو اغواء کرلیا اور اس کی رہائی کے لیے الشیخ احمد یاسین شہید سمیت کئی دوسرے رہ نماؤں کی رہائی شرط رکھی، مگر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائی میں فلسطینی مجاھدین کا گروپ شہید ہوگیا اور ان کے قبضے میں موجود اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوگیا۔
اکتوبر سنہ 1997ء کو اردن میں موساد کے ایجنٹوں نے حماس کے نوجوان رہ نما خالد مشعل پرقاتلانہ حملہ کیا اور انہیں زہر دے کر شہید کرنے کی ناکام کوشش کی تو اس پراردن نے اسرائیل کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے موساد کی کارروائی پر الشیخ یاسین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ اسرائیل کو الشیخ یاسین کو رہا کرنا پڑا۔
جبری نظربندی
فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان اختلافات کے باعث اتھارٹی نے الشیخ احمد یاسین کو بھی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس طرح کی انتقامی کارروائیوں میں شیخ کی جبری نظربندی بھی شامل ہے۔ وہ طویل عرصے تک غزہ کی پٹی میں اپنے گھر پرںظر بند رہے۔
شہادت
الشیخ احمد یاسین کو شہید کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے کئی بارانہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ چھ ستمبر سنہ 2003ء کو اسرائیلی کے جنگی طیاروں نے غزہ کی پٹی میں شیخ احمد یاسین شہید کی رہائش گاہ پربم گرائے جس کے نتیجے میں شیخ یاسین اور اسماعیل ھنیہ سمیت حماس کے متعدد کارکن زخمی ہوگئے تاہم دشمن کا یہ وار بھی ناکام ہوگیا۔
اس کے بعد 22 مارچ بہ مطابق یکم صفر المظفر سنہ 2004ء کو اسرائیل کے جنگی طیاروں نے نماز فجر کے وقت غزہ کی الصبرہ کالونی کی مرکزی جامع مسجد پر بمباری کی۔ اس وقت شیخ احمد یاسین شہید نماز فجر کی ادائی کے بعد اپنی وہیل چیئرپرمسجد سے باہر نکل رہے تھے۔
یہ بمباری اس وقت کے بدنام زمانہ اسرائیلی وزیراعظم اور فلسطینیوں کے خونی شمن ارئیل شیرون کی براہ راست نگرانی میں ہوئی۔ جس میں الشیخ احمد یاسین اور ان کے سات رفقاء جام شہادت نوش کرگئے جب کہ ان کے دو بیٹوں سمیت کئی نمازی زخمی ہوئے۔