پوری دنیا کی طرح ‘کرونا’ وائرس نے صہیونی ریاست کو بھی اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ کرونا کے نتیجے میں اسرائیل میں نظام زندگی مفلوج ہے۔اسرائیل کے عسکری اور سیاسی ادارے جمود کا شکار ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کرونا کے خوف کے سائے میں قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی وجہ سے بھی خوف کا شکار ہے اور اسے بیرون ملک سے خطرات دکھائی دے رہے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ دوسرے ممالک کی طرف کرونا صہیونی ریاست کے لیے تباہی کا پیغام لے کرآیا ہے۔ کرونا کے بحران نے اسرائیل کی سلامتی اور معیشت دونوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اگرچہ اسرائیلی فوج اور وزات دفاع موجودہ بے چینی کو دور کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں مگر صہیونی ریاست پرخطرات کے سائے مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
اسرائیلی حکومت اس وقت بدترین سیاسی افراتفری کا بھی شکار ہے۔ کرونا کی وجہ سے اسرائیل میں نئی حکومت کی تشکیل کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے ناقابل تسخیر ہونے کا زعم رفتہ رفتہ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو رہا ہے۔
گذشتہ روز اسرائیلی وزارت صحت نے کرونا وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد 1442 بتائی ہے جن میں 29 کی حالت خطرے میں بیان کی جاتی ہے۔ اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل 13 نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کرونا کا اٹلی کی طرح غیرمعمولی حد تک شکار ہوسکتا ہے۔ اسی خدشے کا اظہار اسرائیلی ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو بھی کرچکے ہیں جن کا کہنا ہے کہ کرونا کے نتیجے میں اسرائیل میں 10 ہزار افراد ہلاک اور کئی ملین متاثر ہوسکتے ہیں۔
بحران کا حصہ
اس میں دو رائے نہیں کہ اسرائیلی ریاست خود عالمی بحران کا حصہ ہے۔ کرونا جیسا مہلک وائرس ایک ایسےوقت میں دنیا میں پھیلا ہے جب پوری دنیا پہلے ہی کئی بین الاقوامی بحرانوں سے دوچار ہے۔ پہلے ہی دنیا بیالوجیکل اور جراثیمی خطرات کا سامنا کرنے کے ساتھ عالمی نظام کو کمزور کر رہا ہے اور یہ غیر متوقع راستے سے آنے والا وائرس پوری دنیا کے نظام کو تباہ کرنے کا موجب بنا ہے۔
اسرائیل چند روز قبل خبردار کرچکا ہے کہ تل ابیب کے اتحادی اس وقت کرونا کی لپیٹ میں ہیں اس تباہ کاری کے نتیجے میں عالمی توجہ ہٹنے سے صہیونی ریاس کی سلامتی شدید خطرات سے دوچار ہوگئی ہے۔
اسرائیلی امور کے ماہر تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست نے ماضی میں پوری دنیا میں تیار ہونے والے اسلحہ اور جنگی سازو سامان کی خریداری پر توجہ مرکوز کیے رکھی اور دفاع اور اسلحہ کے انبار جمع کرنے پر پانی کی طرح پیسہ بہایا مگر صہیونی ریاست کرونا وائرس کی وباء سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
پوری دنیا بالخصوص دولت مند اور ترقیافتہ ممالک کی طرح اسرائیل بھی کرونا سے لڑنے میں بری طرح ناکام اور کمزور ثابت ہوا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کرونا بحران کے ساتھ ساتھ کئی خارجی خطرات کا بھی سامنا کررہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ صہیونی ریاست اس وقت اندرونی سطح پربھی سیاسی اور سماجی بحران سے گذر رہی ہے۔ اسرائیل کا سماجی اور سیاسی شیرازہ بھی بکھر رہا ہے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران اسرائیلی کنیسٹ کے تین بار انتخابات ہوچکے ہیں مگر صہیونی انتہا پسند اور اعتدال پسند جماعتیں حکومت کی تشکیل پرمتفق نہیں ہوسکی ہیں۔
سلامتی اور معیشت
چند ہفتے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو ذرائع ابلاغ پرنمودار ہوئے اور کہا کہ صہیونی ریاست کی جدید ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی صہیونی ریاست کے لیے نئے افق اور ترقی کی نئی شاہرائوں کے دروازے کھولنے والی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری جدید ٹیکنالوجی اور معاشی خوشحالی سے خطے اور پوری دنیا کے ممالک ہماری طرف کھچے چلے آ رہے ہیں۔ اسرائیل کے دوستوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سفارتی تعلقات کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ قربت بڑھ رہی ہے۔
تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست کا خزانہ دوسرے ممالک کو صہیونی ریاست کی طرف لانے کا محرک بن سکتا تھا مگر حالیہ کرونا بحران نے اسرائیلی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ اس کی معیشت کے محل کو بھی زمین بوس کردیا ہے۔ اسرائیلی ریاست سیکیورٹی اور فوج پربھی بے تحاشا پیسہ خرچ کرتا رہا ہے اور کرونا کے بحران نے صہیونی ریاست کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
حال ہی میں نتین یاھو نے کہا کہ مجھے ڈرہے کہ کرونا وائرس ایک ماہ میں 10 ہزار اسرائیلیوں کی جانیں لے سکتا ہے اور ایک ملین لوگ اس سے متاثر ہوسکتےہیں۔
ڈاکٹر ناجی البطہ بھی اسرائیلی ریاست کے سیکیورٹی کے امور کے ماہر ہیں۔ کرونا بحران پربات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزارت صحت اور وزارت خزانہ کرونا کی روک تھام میں دن رات سرگرم ہیں۔ اسرائیل اس بحران کو قابو میں لانے کے لیے پیسے کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔ اسرائیل میں ترقی اور آمدن کا عمل مکمل طور پر رک چکا ہے۔ اسرائیلی ریاست کو 70 فی صد بجٹ خسارہ ہوسکتا ہے جب کہ اسرائیل کو کرونا کےبحران کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے پانچ لاکھ 60 ہزار اسرائیلیوں کو مالی مدد بھی فراہم کرنا ہے۔