فلسطینی کلببرائے امور اسیران نے غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے کرم ابو سالم کراسنگ کے قریباسرائیلی قابض فوج سےچار فلسطینیوں کو رہائی کے فوراً بعد انہیں شہید کیے جانے کےجرم کی تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے۔ ان میں سے ایک کی لاش گذشتہ روز برآمد ہوئی تھی۔
فلسطینیوں نے اس گھناؤنے جرم کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے عالمیاداروں سے اس جرم میں ملوث صہیونی دشمن کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مقامی ذرائع نے اطلاع دیہے کہ اتوار کی صبح جنوبی غزہ کی پٹی میں کارم ابو سالم کراسنگ سے ہتھکڑیاں لگیتین لاشیں ایک جگہ سے برآمد ہوئی تھیں۔ ان شہیدوں کی شناخت محمد عوض رمضان حجازی،رمضان عوض رمضان حجاز اور کامل ایہاب غباین کے ناموں سے کی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کوموصولہ ایک بیان میں کلب برائے اسیران قیدیوں کو ماورائے عدالت شہید کرنے کے بہیمانہ جرمکی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نیا جنگی جرم ہے، جو جاری نسل کشی کے جنگی جرائمکے طویل ریکارڈ میں شامل ہے۔
امدادیکارکن
دستیاب معلومات کے مطابقاسیران کلب نے وضاحت کی کہ یہ چاروں قیدی غزہ میں امداد کی فراہمی میں کام کرنےوالے کارکن ہیں۔ قابض فوج نے ان کی رہائی کے فوراً بعد کارم ابو سالم کراسنگ پر حملہ کیا، جہاں سے کل ان میں سے ایک کیلاش برآمد ہوئی، اور ان میں سے تین زخمی ہوئے۔ جب کہ شہید ہونے والے چاروںفلسطینیوں کو رہائی سے قبل بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسیران کلب نے مزید کہاکہ اس جرم کے بارے میں دستیاب ابتدائی اعداد و شمار، ان میں سے ایک زندہ بچ جانےوالے کی ابتدائی گواہی کے مطابق قابض فوج نے امدادی کارکنوں کے ایک گروپ سمیت تقریباً15 افراد کو گرفتار کیا۔ انہیں چار دن تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں ماراپیٹا جاتا رہا۔ ان کی تذلیل کی گئی اور انسانی وقار کو ٹھیس پہنچانے والے سختحالات میں حراست میں لیا گیا۔
کلب کا کہنا ہے کہ قابض فوجنے غزہ کے درجنوں قیدیوں کو ماورائے عدالتشہید کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو جیلوں میں، کچھ کو فوجی کیمپوں کے حراستی مراکز میںاور کچھ کو گرفتاری کے فوری بعد تشدد کرکے شہید کیا گیا۔
بیان کے مطابق اسرائیلیغاصب فوج کا جبری گمشدگی کا جرم مسلسل اور بدستور جاری ہے۔، جب کہ قابض فوج غزہ کےدرجنوں اسیران کی شناخت کو چھپا رہا ہےحالانکہ وہ جیلوں اور حراستی مراکزمیں شہیدہوچکے ہیں۔
اسیران کلب نے اس بات کیتصدیق کی کہ قیدیوں کی شہادتوں کی سطح اب بھی ٹارچر پالیسی کی تاریخ میں ایک بےمثال سطح کی عکاسی کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ”اگرچہ نسل کشی کو 275 دن گزر چکے ہیں، لیکن قیدیوں اوراسیران کی شہادتیں اببھی اسی سطح پر ہیں جو ہمیں جنگ کے آغاز میں موصول ہوئی تھیں”۔