فلسطین میں کرونا وائرس کے بڑھتے تباہ کن اثرات کے ساتھ فلسطینی کاروباری حضرات کے نقصانات کا حجم بھی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ فلسطین میں کرونا کی کساد بازاری اور فلسطینی مانیٹری اتھارٹی کے فیصلوں اورپالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینی تاجروں کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ فلسطین میں کرونا کی وجہ سے صحت کا بحران اپنے نتائج کے اعتبار سے شاید اتنا سنگین نہیں ہوگا جتنا کہ فلسطینی کاروباری شخصیات کے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے نتیجےمیں پوری فلسطینی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فلسطینی تاجر مقداد العارضہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کل چیک بکس محض کاغذوں کا پلندہ رہ گئی ہیں۔ ان کی کوئی ویلیو نہیں رہی ہے۔ فلسطینی بنکوں میں چیکوں کا حجم 60 فی صد بڑھ چکا ہے۔ بنکوں سے یہ چیک کیش نہیں ہو پا رہے ہیں جو فلسطینی معیشت کی کساد بازاری کا ثبوت ہے۔
فلسطینی ٹیلی کام کمپنی کے ایک مالک ابراہیم التایہ کا کہنا ہے کہ ساٹھ فی صد چیکوں کا واپس آنا اور فلسطینی تاجروں کو ان چیکوں کی ادائی کا نہ ہونا افسوسناک ہے۔
غیر دانش مندانہ فیصلے
فلسطین میں کرونا وائرس کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی نے ہنگامی حالت نافذ کی تو فلسطینی تاجروں کو دیے گئے چیکوں پر ادائیگی اور قرضوں کی ادائیگی میں مزید چار ماہ کی تاخیر کردی گئی ہے۔ فلسطینی کاروباری حضرات کو دیےگئے چیک کیش نہیں ہو پا رہے جب کہ بنکوں میں موجود عام شہریوں کی رقم بھی انہیں مل رہی ہیں۔
فلسطینی تاجر العارضہ نے بتایا کہ موجودہ حالات میں چیکوں کو کیش کرنا وقت کی ضرورت ہے مگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے کاروباری طبقے کو تحفظ دینے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی کے غیر دانش مندانہ فیصلوں اور پالیسیوں کا خمیازہ فلسطینی تاجروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔