اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے جنگ بندیکے مذاکرات دوبارہ صفر کی سطح پر آسکتے ہیں۔
انہوں نے ثالث ممالک مصراور قطر کی قیادت سے فون پر جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششوں اور غزہ میںاسرائیلی جنگی جرائم پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کے لیےہرممکن لچک دکھائی مگر صہیونی دشمن ریاست اور اس کا سربراہ بنجمن نیتن یاھو اپنیہٹ دھرمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی مجرمانہ پالیسی پر قائم ہے۔
حماس نے ٹیلی گرام پرپوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا کہ ہنیہ نے ثالث ممالک کی قیادت ساتھ فون پر بات کی جسمیں انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن "نیتن یاہو اور ان کی فوج” کومذاکرات کے ممکنہ خاتمے کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہغزہ کی پٹی بالخصوص رفح میں انسانی المیہ ایک خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔
حماس نے مزید کہا کہ نیتنیاہو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے تک پہنچنے کی خاطر ہونے والے مذاکراتکے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حماسایک طرف لچک دکھائی رہی ہے مگر دوسری طرف صہیونی دشمن فلسطینیوں کی نسل کشی ، جبرینقل مکانی، ان کے قتل عام اور ان کی تذلیل کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دشمن نے حماسکی جنگ بندی کے لیے دکھائی جانے والی ہر لچک کا منفی جواب دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس نے ثالث ممالک سے "نیتن یاہو کی چالوںاور جرائم کو روکنے کے لیے” مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ صہیونی قابض فوج نے غزہ شہر کے آس پاس کے علاقوںکے خلاف اپنی جارحیت میں اضافہ کرتے ہوئے دسیوں ہزار شہریوں کو نشانہ بنایا اورانہیں وحشیانہ بمباری کے بوجھ تلے اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ غزہ کیپٹی میں ہمارے فلسطینی عوام کے خلاف نو ماہ سے زائد عرصے سے جاری تباہی کی جنگ کاتسلسل ہے۔ فاشسٹ قابض حکومت تمام بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزیکرتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زوردیا کہ متکبر دشمن امریکی انتظامیہ کے تعاون سے نہتے شہریوں کے خلاف بدترین جارحیتاور خلاف ورزیاں کرتا ہے۔ وہ ہمارے ثابت قدم عوام کو جھکنے پرمجبور نہیں کرے گا۔