یکشنبه 17/نوامبر/2024

فلسطینی اتھارٹی کا ریٹائرمنٹ ترمیمی ایکٹ عوام سے کھلی معاشی نا انصافی

جمعرات 30-اپریل-2020

فلسطین کے عوامی، سیاسی اور ابلاغی حلقوں میں اس ان دنوں ایک طرف کرونا وائرس اور فلسطین میں اسرائیل کا بڑھتا ہوا اثرو نفوذ زیربحث ہے اور دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کا ایک ترمیمی ایکٹ جسے ‘ریٹائرمنٹ ترمیمی ایکٹ’ کا نام دیا گیا ہے زیر بحث ہے۔

حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں نے سابق اور موجودہ وزراء حکومت اور بڑے بڑے افسران کو مالی فائدہ پہنچانے کے لیے ریٹائرمنٹ ایکٹ میں ترامیم کرکے اسے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے سامنے پیش کیا۔ صدر عباس نے سخت عوامی دبائو اور احتجاج کے بعد اس میں کی گئی ترامیم مسترد کردی ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں کی جانب سے یہ ایکٹ 20 اپریل 2020ء کو مکمل کیا گیا جسے رواں سال کا 12 ترمیمی قانون قرار دیا۔ اس ایکٹ میں ترامیم کرتے ہوئے سابق وزراء اور وزیر کے برابر کا عہدہ رکھنے والے ریٹائرڈ افسران کو پنشن ٹیکس سے مستثنیٰ کرنےکی سفارش کی گئی تھی۔

یہ حیران کن تبدیلی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی اتھارٹی پوری دنیا کے سامنے فنڈز کی کمی، بجٹ خسارے اور معاشی نقصانات کا رونا رو رہی ہے اور دوسری طرف عوام سے کہا جا رہا ہے کہ حکومت سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔

اعلانیہ ڈاکہ

فلسطینی تجزیہ نگار یوسف عبید نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس دیہاڑی دار مزدوروں کی مدد کے لیے پیسہ نہیں اور دوسری طرف حکومت نے سابق وزراء کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کا اعلان کرکے قومی معاشی حقوق پر کھلا ڈاکہ ڈالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترمیمی ایکٹ سے تمام سابق وزراء اور سیکڑوں ریٹائرڈ افسران کو ماہانہ اوسطا 3000 شیکل کی ٹیکسوں میں بچت ہوگی۔انہیں نہ صرف مزید ٹیکس نہیں دینا ہوگا بلکہ پہلے ادا کیے گئے ٹیکس بھی انہیں واپس کردیے جائیں گے۔

فلسطین میں فری ہیومن رائٹس کمیشن کے محقق اسلام تمیمی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنشن ایکٹ 59 مجریہ 1994ء اور اس کے ساتھ منسلک صدارتی فرمان میں فلسطین میں انسانی حقوق کے نظام کے تحفظ کی سفارش کی گئی ہے۔ ان دونوں مسودوں میں انسای حقوق کے اداروں کے ساتھ بڑے ریاستی افسران کو مالی اور غیر مالی مراعات کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ خاص طور پر سابق وزراء اور وزیر کے برابر عہدہ رکھنے والے کسی بھی سابق عہدیدار کو پہلے ہی کافی مراعات دی گئی ہیں۔ تاہم اس میں ریٹائرڈ ملازمین کو بھی پنشن سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ فلسطینی اتھارٹی ایک ایسے وقت میں اس قانون کو منظور کرنے کی تیاری کررہی جب کرونا کے باعث فلسطینی پہلے ہی معاشی دبائو کا شکار ہیں۔ اسرائیل نے بھی فلسطینی اسیران کے خاندانوں کو دی جانے والی رقم کے مساوی رقم فلسطینی اتھارٹی کو دینے سے انکار کردیا ہے۔ ایسے میں سابق افسران اور وزراء پر نوازشات کی شہ خرچی سمجھ سے بالا تر ہے۔

بدعنوانی کی ایک نئی شکل

فلسطینی اقتصادی امور کے ماہر اسامہ نوفل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے ترمیمی ریٹائرمنٹ ایکٹ کو کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار کی ایک نئی شکل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سادگی اور کفایت شعاری کا نعرہ لگانے والے سابق وزراء کو کیسے ٹیکسوں میں چھوٹ دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مخصوص طبقے کو نوازنے اور عوامی کسماپرسی کو نظرانداز کرنا بھی کرپشن ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اسامہ نوفل کا کہنا تھا کہ سنہ 2019ء میں فری ہیومن رائٹس کمیشن نے بتایا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کے مالیاتی بحران کی ایک وجہ اتھارٹی کے افسران اور وزراء کی تن خواہیں بھی ہیں۔ یہ وزراء اور افسران بھاری بھاری تنخواہیں وصول کرتے ہیں اوردوسری طرف عوام کو سادگی اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

فلسطینی معاشی تجزیہ نگار نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا کہ وہ سرکاری عمال اور بڑے افسران کی تنخواہوں اور انہیں دی گئی مالی مراعات پر نظر ثانی کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی طرف سے پیش کردہ رپورٹس اور تجاویز کو دیوار پرمار دیا جاتا ہے۔

اسامہ نوفل کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے پنشن ایکٹ میں ترامیم اور سابق افسران کو نوازنا غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر امیروں اور صاحب حیثیت افراد کو نوازنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے استفسارکیا کہ کیا فلسطینی اتھارٹی کوئی ایسا ایکٹ بھی منظور کرسکتی ہے جس میں غریب عوام کو معاشی فائدہ پہنچانے کی ضمانت دی جائے۔ سینیر افسران کو نوازنا، من پسند افراد کو مراعات دینا، منتخب فلسطینی ارکان اسمبلی کو ان کی مالی اور معاشی مراعات سے محروم کرنا  افسوسناک ہے۔

خیال رہے کہ فلسطینی  صدر محمود عباس نے 22 دسمبر 2018ء کو فلسطینی پارلیمنٹ تحلیل کرنے اور تمام ارکان کو ریٹائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو ریٹائرمنٹ الائونسز سے بھی محروم کردیا تھا۔

مختصر لنک:

کاپی