جمعه 15/نوامبر/2024

عرب ۔اسرائیل دوستی ڈرامےتاریخی حقائق مسخ کرنےکی گھنائونی سازش

جمعہ 1-مئی-2020

ان دنوں عرب دنیا بالخصوص فلسطین میں ایک طرف کرونا کی وبا پھیل رہی ہے اور دوسری طرف موجودہ حالات سے فائدہ اٹھا کر خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستی کی راہیں تلاش کررہےہیں۔ عرب ممالک کی طرف سے ماہ صیام میں ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت ٹی وی چینلوں پرایسے ڈرامے نشر کیے جا رہے ہیں جن میں عرب عوام کو اسرائیل کو ایک آئینی ریاست اور زمینی حقیقت کے طورپر قبول کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف عوامی حلقوں نے حکومتوں کی اس سازش اور ان ڈراموں کے درپردہ مذموم مقاصد کو بھانپ لیا ہے اور ان کے خلاف سوشل میڈیا آنے والا رد عمل آنکھیں کھولنے کے لیے کافی و شافی ہے۔

ایسے وقت میں جب فلسطینی قوم قابض اسرائیلی ریاست کے مظالم کے خلاف  آزادی کی جدوجہد میں عرب ممالک کی حکومتوں سے مدد کی توقع رکھتے ہیں عرب ٹی وی چینلوں پر اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کی ترغیبات دلانے والے ڈراموں کی فلموں کی نشریات انتہائی مایوس کن ہے۔ ماہ صیام کے دوران اسرائیل ۔ عرب دوستی ٹریل کے لیے ثقافتی دروازے کھولے جا رہےہیں۔ مگر عوامی حلقوں نے حکومتوں کے اس ‘ڈرامے’ کو مسترد کردیا ہے۔

اسرائیل سے دوستی کی کوششیں توعرب حکمرانوں کی طرف سےپہلے بھی جاری رہی ہیں۔ مشترکہ کھیلوں کی شکل، معاشی منصوبوں اور سیاسی تعاون کے بعد اب عرب حکومتیں دیدہ و دانستہ طریقے سے ٹی وی ڈراموں کی آڑ میں تاریخی حقائق مسخ کرنے کی بھونڈی کوشش میں ہیں۔ ان ٹی وی ڈراموں میں جنہیں’رمضان ڈرامہ سیریز’ کا نام دے کر ماہ صیام کی بھی توہین کی جا رہی ہے میں دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنانے کی سعی لاحاصل کی جا رہی ہے۔ ان میں تاریخی اور زمینی حقائق کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی ماضی کے اصولی موقف سے بھی سرا سر اںحراف کیا جا رہا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اسرائیل نواز ڈرامے چلا کر عرب ممالک کے عوام کا رد عمل معلوم کیا جا سکے کہ آیا عوامی حلقوں کی طرف سے اسرائیل کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کے حوالے سے کیا رد عمل سامنے آ رہا ہے؟۔

عرب دنیا میں  سماجی کارکن مختلف میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے ان ڈرامہ سیریز کے خلاف مذمتی مہمات چلا رہے ہیں۔ ان مہمات میں حصہ لینے والے کار کن بلاخوف ان ڈراموں کو ‘غداری’ سے تعبیر کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر رد عمل

کویت کے کارکن خالد العتیبی نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ‘ٹویٹر’ پر ٹویٹ کیا  کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ عرب حکمرانوں نے فلسطین میں یہودیت کے فروغ کے ساتھ  صہیونیوں کو غریب ، مظلوم ، لاچار اور فلسطینی اراضی کے مالک ظاہر کرنے کی جھوٹی اور گمراہ کن کوشش کی ہے مگر اس سے ہمارا  یقین اور پختہ اور غیر متزلزل ہوگیا ہے کہ اسرایل ایک دشمن ، درندہ سفاک قابض ریاست ہے اور اس کے ساتھ دوستی فلسطینی قوم اور پوری عرب اور مسلم امہ کے ساتھ غداری ہے۔

ایک دوسرے سماجی کارکن احمد بن راشد بن سعید نے کہاکہ ہم نے ہمیشہ یہ نغمہ گایا ‘پورا بلاد عرب میرا وطن ہے’۔ آج سعودی ڈرامہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ دوستی کی ترغیب دیتا ہے۔ ہمیں بتا رہا ہے کہ بلاد عرب ہمارا نہیں بلکہ یہودیوں  اور صہیونیوں کا بھی وطن ہے۔ اس کے بغیر بقائے باہمی کے ساتھ آگے چلنا مشکل ہے۔ بدقسمتی سے کچھ سعودی کارکن صہیونی دشمن کو اپنا بھائی قرار دینے لگے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ مٹھی بھر غداران ملک وملت پوری سعودی قوم کی نمائندگی اور اجتماعی سوچ کی عکاسی نہیں کرتے۔ سعودی عوام کی بھارتی اکثریت آج بھی فلسطینیوں سے محبت کے جذبات سے سرشار اور اسرائیل کو’دشمن’ تصور کرتی ہے۔

آمنہ نے سعودی عرب سےہیش ٹیگ ‘برادر صہیونی دشمن میں  لکھاکہ بدقسمتی یہ ہماری فکری کم زوری ہے کہ ہم آج اسرائیل کو جو ہمارا کھلا دشمن دوست اور بھائی تصور کرنے لگے ہیں۔ ہم اسرائیل کی دوستی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ ہمیں فلسطینی اپنے دشمن لگنے ہیں۔ کیا اسرائیل سے دوستی کی کوشش میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کو دشمن مان لیں گے اور فلسطینیوں کے بارے میں وہی سوچ اپنائیں گے جو اسرائیل اور پوری دنیا کے صہیونیوں نے اختیار کر رکھی ہے۔

سماجی کارکن قاسم الرفاعی نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پرلکھا کہ "فلسطینی عوام کو مسخ کرنے اور ان کے اور ہمارے درمیان نفرت پھیلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، لیکن ہمارے درمیان چاہے جس طرح کے بھی اختلافات ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ فلسطینی ہمارے بھائی ہیں اور ہمارا اور فلسطینیوں کا دشمن ایک ہی ہے۔

کارکن خالد صافی نے لکھا کہ فلسطین کا مسئلہ پوری مسلم امہ کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں مذہبی ، معاشرتی ، اخلاقی ، فکری اور انسانی جہات شامل ہیں، دنیا کے لبرلز نے فلسطینیوں کی حمایت کی اور وہ اسرائیلی دشمن کے خلاف فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔ ہماری ذمہ داری تو سب سے بڑھ کرہے کہ ہم فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے رہیں۔


مختصر لنک:

کاپی