فلسطینی قوم ایک مخلص، دیانت دار اور بے لوث فلاحی، سیاسی اور سماجی کارکن سے محروم ہوگئی۔
دو روز قبل اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے جہاں دیدہ رہ نما احمد الکرد نماز تراویح میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی موت نے پوری فلسطینی قوم کو شدید صدمے سے دوچار کیا ہے۔
الکرد کی زندگی کا بیشتر حصہ بے سہارا لوگوں کی خدمت اور مدد میں گذرا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ کریم نے ان کی موت ایسی قابل رشک کی ہر اہل ایمان ایسی ہی موت کی خواہش کرتا ہے۔
پچھلی صدی کے ستر کی دہائی سےاحمد الکردہ غزہ کی پٹی کے گورنریوں کے مابین سفر کرتے ہوئے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے دلوں میں خوشی اور مسرت کا سامان پیدا کرتے رہے۔ غزہ کی پٹی میں رفاہی اور ادارہ جاتی کاموں کے عروج اور ترقی کے مراحل میں الکرد کا کلیدی کردار رہا ہے اور ان کی کاوشوں کے اثرات تا دیر محسوس کیے جائیں گے اور فلسطینی قوم ان کی فلاحی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
الشیخ احمد الکرد المعروف ابو اسامہ دو روز قبل نماز تراویح ادا کرتے ہوئے انتقال کرگئے۔ ان کی موت اس وقت ہوئی جب وہ اپنے رب کے سامنے عبادت کرنے کھڑے تھے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں غزہ میں نیکی اور خوشی پھیلاتے ہوئے ، عرب ، اسلامی اور یوروپی ممالک کے مابین امداد کی تلاش میں سفر کرتے گذرا۔
احمد الکرد کون ہیں؟
غزہ میں دیر البلح کے میئر سعید نصار نے فلسطینی میڈیا سنٹر سے بات کرتے ہوئے 71 سال کی عمر میں انتقال کرنے والے احمد الکرد کی حیات اور خدمات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ میں الکرد کے اہل خانہ 1948 ء میں شمالی فلسطین سے ھجرت کرکے غزہ میں دیر البلح کے مقام پر آباد ہوگئے۔ ۔ وہیں پر ایک سال بعد 1949ء کو احمد پیدا ہوئے۔ان کا آبائی ائون عسقلان تھا جو غزہ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔
ابو اسامہ 13 ستمبر 1949 ء کو "بیت طیما” نامی قصبے میں ایک قدیم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی آف الخلیل کے کالج آف شریعہ سے گریجویشن کی۔ انہوں نے الشیخ احمد یاسین کے ہاتھوں دعوتی اور جہادی تربیت حاصل کی۔انہیں الشیخ احمد یاسین شہید کا دست راست خیال کیا جاتا تھا
الکرد نے غزہ کی پٹی کے دیر البلح ہی کے مقام پر شادی کی۔ ان کے 11 بچے اور بچیاں ہیں۔ الشیخ الکرد غزہ کی پٹی میں بے سہارا لوگوں کا سہارا بنے اور اس مشن میں انہوں نے طویل سفر طے کیا۔ وہ چین سے نہیں بیٹھتے تھے انہوں نے اندرو فلسطین اور بیرون ملک بھی فلسطینیوں کے لیے فنڈ ریزنگ کی۔
پہلی بار اسرائیلی فوج نے سنہ 1982ء کوانہیں گرفتار کیا۔ انہیں ڈیڑھ سال تک جیل میں انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل رکھا گیا۔
اس کے بعد انہیں متعدد ادروار میں 6 بار گرفتار کیا گیا ان کی فلاحی سرگرمیوں کی پاداش میں انہیں بار بار انتظامی قید میں ڈالا گیا۔
سنہ 2005ء میں انہوں نے غزہ میں الصلاح الاسلامیہ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔
وہ مسلسل فلاحی کاموں میں مصروف رہتے۔ اسپتالوں، اسکولوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑتے۔
انہوں نے دیر البلح میں ایک اسکول قائم کیا جس میں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے اور اس وقت وہاں پر ایک ہزار سے زاید بچے زیرتعلیم ہیں۔
ان کی وفات پر فلسطینی قیادت بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کی طرف سے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے الشیخ احمد الکرد کی وفات کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئےکہا ہے کہ ان کا خلاء صدیوں تک پُر نہیں کیا جاسکے گا۔