شنبه 16/نوامبر/2024

غرب اردن کا الحاق صہیونی نسل پرستی کی تفصیلی کہانی

منگل 12-مئی-2020

اسرائیلی کنیسٹ  کے انتخابات کے تیسرے دور کے اختتام اور مارچ میں ان کے نتائج سامنے آنے کے بعد صہیونی سیاسی جماعتوں کی نظریں نئی حکومت پرمرکوز ہوگئیں۔ حکومت سازی کی اس جدو جہد میں صہیونی انتہا پسند سیاست دانوں نے فلسطینی اراضی پرقبضے میں توسیع اور فلسطینیوں کے خلاف منظم نسل پرستی کو ایک ایندھن کے طورپر استعمال کیا۔

اس نسل پرستی جس کا کردار اسرائیلی  ریاست اور امریکا کے مابین مشترک طور پر کیا جا رہا ہے میں اسرائیل میں امریکی سفیر کا کلید کردار ہے۔ حال ہی میں  قابض ریاست میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے اس اعلان نے واضح کردیا کہ امریکا غرب اردن پر اسرائیلی قبضے اور نام نہاد خود مختاری کے قیام میں اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے۔

دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی کے رہ نما اور اسرائیل میں نگراں حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاہو اور اس کے سابق سیاسی حریف  بلیو اور وائٹ پارٹی کے لیڈر بینی گینٹز کے درمیان اس بات پراتفاق ہوا ہے کہ  جولائی کے اوائل میں مغربی کنارے کے اسرائیل سے الحاق کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ اگرچہ فی الحال یہ اعلان کیا گیا ہے کہ غرب اردن میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں کو اسرائیل کا حصہ بنایا جائے گا مگر در پردہ اسرائیل پورے مغربی کنارے پرقبضے کی منصوبہ بندی کررہا  ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل اور امریکا کی نسل پرستی اس وقت کھل کرسامنے آئی جب امریکا نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیا۔ اس کے بعد القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونرا’ کو دی جانے والی سالانہ امداد بند کردی۔

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غرب اردن پر اسرائیلی ریاست کی خود مختاری کے قیام کے بعد دو ریاستی حل کا تصور معدوم ہوجائے گا۔

فلسطینی دانشور اور تجزیہ نگار سہیل خلیلیہ نے کہا کہ مغربی کنارے کے الحاق کرنے کے عمل کی وجہ سے فلسطینی شہریوں کو کئی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ غرب اردن میں فلسطینیوں کو جغرافیائی بنیادوں پر ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا جس کے نتیجے میں غرب اردن کی وحدت ختم ہوجائے گی۔ فلسطینی قصوبوں اور شہروں کو نسلی دیوار کے حصارمیں لے کر فلسطینیوں کا ناطقہ بند کردیا جائے گا۔

خلیلیہ ، جو انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ ریسرچ "اے آر آئی جے” میں آباد کاری مانیٹرنگ یونٹ کی ڈائریکٹر ہیں نے نشاندہی کی کہ وادی اردن اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسی سےزیادہ متاثر ہوا ہے  کیونکہ فلسطینی اس میں قدرتی وسائل اور پانی کےذخائر سے محروم ہوجائیں گے۔  بحیرہ مردار پر اسرائیلی قبضے کے بعد فلسطینیوں کی سمندر تک رسائی بھی رک جائے گی۔

ریٹائرڈ میجر جنرل یوسف الشرقاوی نے کہا کہ اسرائیلی قابض اب بھی انفرادی مزاحمتی کارروائیوں سے خوفزدہ ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیاں وقتا فوقتا بڑھتی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے غرب اردن کے الحاق کا فیصلہ بہت پہلے کرلیا تھا۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہونے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کے خیالی منصوبے نے مغربی کنارے پر اسرائیلی الحاق کرنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ اتھارٹی اس معاملے پر تذبذب کا شکار ہے۔ وہ فلسطین کی مرکزی کونسل کے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر پائی۔  فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی ریاست کے انتقامی حربوں پرمذمت سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی دشمن فلسطینیوں کی طرف سے بڑھتی انفرادی مزاحمتی کارروائیوں سے خایف ہے اور وہ طاق کے ذریعے فلسطینیوں کو کچلنا چاہتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی