چهارشنبه 30/آوریل/2025

ایک فوجی کے قتل پر پورے فلسطینی قصبےکو اجتماعی سزا

اتوار 17-مئی-2020

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں چند گذشتہ ہفتے اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر انہیں تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا تو اس پر فلسطینی شہری مشتعل ہوگئے اور انہوں‌ نے کلاشنکوفوں سے لیس صہیونی درندہ صفت فوجیوں پر سنگ باری کی۔ پتھرائو اتنا شدید تھا کہ ایک صہیونی فوجی اس کی زد میں آ کر جھنم واصل ہوگیا۔ یہ واقعہ غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے نواحی علاقے یعبد میں پیش آیا۔ اس واقعے کے بعد صہیونی فوج نے پورے قصبے کی آبادی کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کئی روز گذرنے کے باوجود صہیونی فوج نے یعبد کا محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے۔

فلسطینی انسانی حقوق کے کارکن صلاح الدین موسیٰ کا کہنا ہے کہ یعبد میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی کسی ایک کارروائی کے جواب میں اسرائیلی فوج کس طرح ایک پوری کی پوری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کی پالیسی پرعمل پیرا ہوگی۔ ایک فلسطینی کی سنگ باری سے اسرائیلی فوجی کی ہلاکت پر پورے قصبے کی آبادی کو اجتماعی سزا دینا انسانی حقوق کی سنگین پامالی کا واضح ثبوت ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوج نے 15 مئی کو سابق فلسطینی اسیر عدنان حمارشہ کے گھر میں گھس کر ان کے پورے خاندان کے افراد کو بندوقوں ، لاتوں اور لاٹھیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ حمارشہ کو اتنا شدید اور وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا گیا تھا کہ اسے اسپتال لے جانا پڑا اور اس کے سر میں 35 ٹانکے لگے۔ اس کے علاہ اس کے بھائی ، دونوں بیٹوں اور دیگر افراد خانہ بھی وحشیانہ طریقےسے مارا گیا اور انہیں زخمی کیا گیا۔

حمارشہ کےساتھ پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے ان گنت واقعات پیش آچکے ہیں۔ آئے روز اسرائیلی فوج فلسطینی شہریوں کے گھروں میں گھس کر انہیں ہولناک اور سفاکانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔

حمارشہ پر تشدد سے ایک روز قبل اسرائیلی فوج نے یعبد قصبے میں تلاشی کی کارروائی کے دوران معتصم ربحی ابو بکر اور اس کے بھائی کو ان کے گھر سے اٹھایا اور انہیں ایک ویران جگہ لے جا کر ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کےبعد انہیں اسی جگہ پھینک دیا گیا۔ مقامی شہریوں نے دونوں کو اٹھا کر اسپتال پہنچایا جہاں اب بھی ان دونوں‌کی حالت خطرے میں بیان کی جاتی ہے۔ معتصم ابھی تک ہوش میں نہیں آسکا ہے۔

تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے حمارشہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے صرف انتقامی کارروائی کے طورپر صہیونی فوج نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے اس طرح کے طریقہ واردات کا مقصد مزاحمت کی حمایت کرنے والے فلسطینیوں کو خوف زدہ کرنا ہے۔

تجزیہ نگار  اور انسانی حقوق کے کارکن محمد ابو بکر نے کہا کہ یعبد قصبے میں ایک اسرائیلی فوجی کی ہلاکت کے بعد صہیونی فوج نے السلمیہ کالونی سے ایک ایک گھر میں‌گھس کر تشدد کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد المدار کالونی اور یعبد کی تمام دیگر کالونیوں میں ایسا کوئی گھر نہیں بچا جس میں مرد حضرات اور بچوں کو ہراساں‌نہ کیا گیا ہو۔

انہوں‌نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا صہیونی ریاست کے ہاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ قابض فوج کا دل پسند مشغلہ ہے۔ یہ ظلم برسوں سے فلسطینیوں کے خلاف جاری ہے اور اس کا مقصد فلسطینیوں کو مزاحمت سے باز رکھنا اور پوری آبادی کو اجتماعی سزا دینا ہے۔

قابض فوج نے یعبد قصبے کو تمام اطراف سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ یعبد کو ملانے والی سڑکوں اور پیدل راستوں تک کو بند کردیا گیا ہے اور کسی فلسطینی کو وہاں سے باہر جانے اور یا باہر سے اندر آنے کی اجازت نہیں۔

ابو بکرنے یعبد قصبے میں پوری آبادی کو یرغمال بنانے کے صہیونی اقدام پر فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ غفلت اور اس سارے معاملے کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں‌نے کہا کہ صہیونی فوج کا کام ہی فلسطینی قوم پر ظلم ڈھانا اور انہیں اجتماعی سزائیں دینا ہے مگر فلسطینی اتھارٹی کا اس سارے معاملے میں کہیں  کوئی کرداردکھائی نہیں دیتا جو کہ انتہائی شرمناک ہے۔

ایک دوسرے تجزیہ نگار احمد الکیلانی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ نے ایک پریس کانفرنس میں یعبد کے محصورین کے ساتھ ہمدردی کے بجائے ان کے خلاف غم وغصے کا اظہار کیا ہے حالانکہ انہیں نہ محصورین یعبد کا ساتھ دینا چاہیے بلکہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی حمایت کرنی چاہیے۔

مختصر لنک:

کاپی