قابض صہیونی ریاست کی طرف سے نہتی فلسطینی قوم کے خلاف ریاستی جرائم کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے، اس کی تازہ مثال چند روز قبل مسجد اقصیٰ کے دروازے پرایک ذہنی معذور فلسطینی کی بے رحمانہ شہادت کا واقعہ ہے۔
ہفتے کے روز اسرائیلی فوج نے ایک سوچے سمجھے اور طے شدہ منصوبے کے تحت 32 سالہ فلسطینی ایاد خیری الحلاق کو گولیاں مار کر شہید کیا۔ قابض فوج نے حسب معمول خود کو اس مجرمانہ دہشت گردی میں بری الذمہ کرنے کے لیے یہ الزام عاید کیا کہ الحلاق کے پاس پستول تھا اور اس نےاسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کی کوشش کی تھی۔ تاہم یہ سب ایک ڈھونگ تھا جس کا مقصد قابض فوج کو ریاستی دہشت گردی کے ایک وحشیانہ اور ناقابل معافی جرم میں بچانے کی کوشش کرنا تھا۔
شہید ایاد الحلاق کے قریبی عزیز رامی ابو غریبہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الحلاق کی شہادت کی تفصیلات بیان کیں۔ ابو غریبہ نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ایاد کے جسم میں 10 گولیاں پیوست کیں۔
ایاد جسمانی اور ذہنی طور پرپیدائشی معذور تھا اور وہ کسی کے لیے خطرہ کیا بنتا اسے اپنا بھی کوئی ہوش نہیں تھا۔ اس کے والدین کا کہنا ہے کہ ایاد کی پیدائش کے بعد اس کی نشو نما بہت آہستہ آہستہ ہو رہی تھی۔ وہ جسمانی طورپر کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی طورپر کم زور، سماعت سے کمزور اور سات سال کی عمر میں دیگر حواس خمسہ کی صلاحیتوں کے حوالے سے بھی کافی کمزور ہوگیا تھا۔
ابو غریبہ نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے الزام عاید کیا کہ ایاد نے پلاسٹک کی ایک پستول لہرائی تاہم بعد ازاں خود ہی قابض فوج نے اس دعوے کی صحت سے انکار کردیا۔ قابض فوج کا انکار ہی اس کے سنگین اور وحشیانہ جرم کا واضح ثبوت تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کی وحشیانہ اور اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں موقعے پر ہی شہید ہوگیا۔
شہید ایاد کی ماں نےاستفسار کیا کہ میرے لخت جگر کو کس جرم میں شہید کیا گیا۔ مصیبت زدہ ماں نے کہاکہ میں سوئی ہوئی تھی کہ میری بیٹی نے مجھے جگا کر بتایا کہ یہودیوں نے ایاد کو شہید کردیا ہے۔
شہید کی ماں نے کہا کہ اس کے بیٹے کو باب الاسباط میں وحشیانہ اور سنگین جرم کے تحت شہید کیا گیا۔
فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کے ڈائریکٹر عمار دویک نے کہا کہ قابض اسرائیل نے طویل عرصے سے نہتے فلسطینیوں کو بغیر کسی جرم اور الزام میں محض شبے کے تحت شہید کرنے کی مجرمانہ پالیسی اپنا رکھی ہے۔