فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے 30 فی صد علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کے تاریخ کے گھنائونے منصوبے نے قضیہ فلسطین کو ایک بار پھر عالمی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ غرب اردن کے شہروں میں قائم کی گئی سیکڑوں یہودی کالونیوں کو اسرائیل کا باقاعدہ حصہ تسلیم کرنے کے بعد بچ جانےوالے فلسطینی علاقوں پر مشتمل اگر فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائےگا۔ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان 27 سال سے جاری مذاکرات کے ڈھونگ کے تمام نتائج صفر ہوجائیں گے اور بغیر کسی نتیجے کے مذاکرات کا ڈرامہ فلاپ ہوجائے گا۔ یوں فلسطینی ریاست پنیر کے ایک ٹکڑے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھے گی۔
اگرچہ قابض اسرائیل کے پاس تمام وسائل اورطاقت موجود ہےمگر حقیقت یہ ہے کہ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کے اعلان کے ساتھ ہی یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ستائیس سال سے فلسطینیوں کو جس فلسطینی ریاست کا خواب دکھایا جا رہا تھا وہ محض ایک دھوکہ اور فریب تھا۔ اس نام نہاد مذاکراتی جال کا مقصد وقت حاصل کرنا اور دھیرے دھیرے فلسطینی اور عرب علاقوں پر قابض صہیونی ریاست کے وجود کو راسخ کرنا تھا۔ غرب اردن اور وادی اردن پر اسرائیلی ریاست کی خود مختاری کے اعلان نے ایک بار پھر قضیہ فلسطین کو اس کی پہلی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔
مغربی کنارے اور وادی اردن کے اسرائیلی اتحاد کو منفی پہلوؤں کے ساتھ سیاسی ، معاشی اور سلامتی کے پہلو بھی وابستہ ہیں۔ ان میں سے تازہ ترین دو ریاستی حل کا خاتمہ، بین الاقوامی سطح پر مسلمہ فلسطینی ریاست کے وجود کا خاتمہ اور فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور عالمی معاہدوں کے تحت فلسطینیوں کو حاصل حقوق کو کچلنا جیسے پہلو سب سے اہم ہیں۔
سیاسی اور معاشی پہلو
موجودہ حالات اور منظر نامے کو مستقبل کے ویژن کے مطابق دیکھا جائے تو صاف ظاہرہوتا ہے کہ قابض اسرائیل تین دہائیوں سے جاری مذاکرات کے بے جام ڈھانچے پر کلہاڑی چلا رہا ہے۔ اسرائیل نے دراصل آج سے ستائیس برس قبل فلسطینی اتھارٹی کے وجود کو اس لیے تسلیم کیا تھا تاکہ وہ رفتہ رفتہ فلسطینی علاقوں پر اپنے پنجے مضبوط کرے اور فلسطینیوں کو نام نہاد مذاکرات کے جھانے اور لالی پوپ میں الجھائے رکھے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر احمد الحیلہ نے بتایا کہ عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے لیے سنہ 1967ءکی جنگ کےمقبوضہ علاقوں کو شامل کرنے کا ماحول تیار کیا جا رہا تھا۔ اس ضمن میں عالمی برادری اور عالمی اداروں نے قراردادیں بھی منظور کر رکھی ہیں مگر غرب اردن اور وادی اردن کے اسرائیل سے الحاق کے منصوبے نے عملا فلسطینی ریاست کے مستقبل کو عملی طور پر کچل کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے اپنے مضمون میں مزید کہا کہ غرب اردن پر اسرائیلی خود مختاری پورے فلسطینی پر مکمل قبضے کی شکل میں تبدیل ہوجائے گی اور فلسطینی قوم اپنے ہی وطن میں غریب الوطن اور اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ فلسطینیوں کو اگر اسرائیلی بندوق کے سائے میں داخلی خود مختاری حاصل بھی ہوئی تو وہ ہر اعتبار سے صہیونی ریاست کے رحم وکرم پرہوں گے۔ وادی اردن پر اسرائیلی ریاست کے غاصبانہ قبضے سے فلسطینیوں کی معیشت تباہ ہوکر رہ جائے گی۔ اس طرح فلسطینی قوم ایک ایک لقمے کو ترس جائیں گے۔
یہاں سے اسرائیل اور اس کے بعض حواریوں کی جانب سے کچھ عرصے سے ترویج دیے گئے معاشی امن کے نام نہاد منصوبے کی طرف توجہ مبذول ہوجاتی ہے۔ مگر فلسطینی قوم یہودی آبادکاری میں صنعت اور زراعت کے پیشوں کو کیسے آگے بڑھائیں گے اور اپنے معاشی چیلنجز سے کیسے نمبر آزما ہوں گے۔
اس وقت 50 ہزار کے لگ بھگ فلسطینی صہیونی ریاست میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ کرونا کی وبا نے اسرائیل میں فلسطینیوں کے روزگار کو بھی بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔
پیرس معاشی معاہدے نے نقد رقم ، ٹیکس اور اتھارٹی کے ساتھ کلیئرنگ کے کے ساتھ ساتھ اسرائیل فلسطینی درآمدات کا 68 فی صد کنٹرول کرتا ہے۔
مغربی کنارے میں سلامتی
سب سے زیادہ حساس پہلو سلامتی کا پہلو ہے۔ اسے عرف عام میں سیکیورٹی کوآرڈینیشن کہا جاتا ہے۔ یہ سیکیورٹی تعاون اوسلو معاہدے کا سب سے اہم نتیجہ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر عباس نے گذشتہ مئی میں قابض حکومت اور امریکا کے ساتھ PLO کے تمام معاہدوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تجزیہ کار الحیلہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کےاسرائیل کے اور امریکا کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون نے فلسطین میں یہودی آباد کاری اور اسرائیل کی خدمت میں معاونت کی۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی قوم کی تحریک مزاحمت کو دہشت گردی کا لبادہ اڑھانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ البتہ اب فلسطینی مملکت کے پاس آپشن محدود رہ گئے ہیں۔ غرب اردن اور دوسرے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی خود مختاری کے اعلان کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے پاس صرف دو ہی راستے بچے ہیں۔ یا وہ کھل کر اسرائیل کے ساتھ جاری نام نہاد سیکیورٹی تعاون ختم کرے یا اسرائیل کے تابع فرمان ہو کر یکے بعد دیگرے فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق کے سودے بازی کو قبول کرتی چلی جائے۔
اس وقت ہر فلسطینی یہ جانتا ہے کہ غرب اردن پر اسرائیلی خود مختاری کے اعلان سے صہیونی ریاست نے ایک اہم سنگ میل طےکیا ہے۔