یکشنبه 17/نوامبر/2024

القدس کے فلسطینی اپنا قومی تشخص کیسے بچا رہے ہیں؟

پیر 15-جون-2020

ایک طرف قابض صہیونی ریاست فلسطینی قوم کے تشخص کو مٹانے کے لیے تمام مادی اور معنوی وسائل جھونک رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی قوم اپنے قومی تشخص اور ملک کی شناخت بچانے کے لیے حسب توفیق اپنا فرض پورا کرنے میں مصروف ہیں۔

فلسطینی قوم کو 72 سال سے قومی تشخص کی بقا کا چیلنج درپیش ہے۔ اسرائیلی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ بیت المقدس اور دوسرے فلسطینی علاقوں کی تاریخی عرب اور اسلامی شناخت مٹا کران پر یہودیت اور عبرانیت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔

فلسطینی شہری اپنے ملک کا تشخص بچانے کے لیے مقبوضہ شہروں کے ناموں پراپنے بچوں کے نام رکھ رہے ہیں۔

اس وقت فلسطینیوں کی نوجوان نسل میں یافا، بیسان، صفد، کرمل، جنین، حمامہ اور مجدل جیسے نام کافی مشہور ہیں۔فلسطینی اپنے ملک کے تاریخی تشخص کو بچانے کے لیے فلسطینی شہریوں اور قصبوں کے نام اپنے بچوں کے نام پر رکھ رہے ہیں۔

اس وقت غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینی ایسے ہیں جن کے نام کسی فلسطینی علاقے، شہر یا گائوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے قدس پریس نے ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے اور بتایا کہ فلسطینی وزارت داخلہ کے ریکارڈ میں ایسے ہزاروں نام ملتےہیں جو فلسطینی شہروں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی شہروں کے ناموں پر بچوں کے ناموں کی تعداد 4 ہزار 542 ہے۔ ان میں "بیسان” نام سب سے زیادہ مقبول ہے۔ یہ نام 3699 فلسطینیوں کارکھا گیا ہے۔ اس کےعلاوہ جنین نام 422 فلسطینیوں کا رکھا گیا ہے۔

چھتیس سالہ یافا الکفارنہ نے بتایا کہ اس کا نام مقبوضہ فلسطینی شہر یافا کے نام پر رکھا ہے۔ یافا فلسطین نہیں بلکہ پوری دنیا کے خوبصورت ترین شہریوں میں سے ایک ہے۔

یافا کفارنہ نے قدس پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ فلسطین کے بہت سے شہر اور قصبے قابض صہیونی ریاست کےتسلط میں ہیں مگر ان شہروں کے نام ہمارے گھروں میں ہیں۔ اس لیے ہم ان شہروں کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔

اس نے کہا کہ فلسطینی قوم کے پاس اپنے قومی تشخص کو زندہ رکھنے کا یہی ایک طریقہ بچا ہے۔

الکفارنہ کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی یافا شہر نہیں دیکھا۔ میں یافا کے بارے میں اپنے والدین اورآبائو اجداد سے سنتی رہی ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یافا ایک خوبصورت اور تاریخی شہر ہے۔ شہر ساحل سمندر پرواقع ہے۔ اس کی قدیم مسجد، العجمی کالونی، الکرمل بازار شہر کے لینڈ مارک ہیں۔ اسرائیلی قبضے سے قبل فلسطین ہی نہیں بلکہ عرب شہروں میں بہترین شہر تصور کیا جاتا تھا۔

یافا الکفارنہ کی ماں سھیلہ الکفارنہ نے قدس پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالات نے ہمیں اپنی بچی کا نام یافا رکھنے پرمجبور کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ یافا الکفارنہ کے والد اسرائیلی زندانوں میں قید ہیں۔

یافا کفارنہ کے چچا ناصر نے بتایا کہ 26دسمبر 1994ء کو یافا شہر میں قائم کی گئی تل ابیب نامی کالونی میں ایک فدائی حملہ کیا گیا۔ اس فدائی حملے کے لیے خفیہ کوڈ "یافا” ہی رکھا گیا تھا۔

فلسطینی دانشور اور مورخ سمیر حمتو نے کہا کہ فلسطینی شہریوں کا اپنے بچوں کے نام شہروں کے نام پررکھنا فلسطینی تشخص اور تاریخ کو مٹنے سے بچانا ہے۔

حمتو نے قدس پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی دشمن کا خیال ہے کہ سنہ 1948ء کے دوران قیام اسرائیل کے وقت کی فلسطینی نسل بوڑھی ہوچکی ہے یا اس کی اکثریت فوت ہوچکی ہے مگر فلسطینی قوم اپنی نئی نسل کو فلسطین کی تاریخ اور تشخص سے نابلد نہیں رکھے گی۔ ہم اپنے بچوں کے نام فلسطینی شہروں اورقصبوں کے ناموں پر رکھتے ہیں۔ تاکہ فلسطینیوں کی نئی نسل اپنی تاریخ اور پہچان کو یاد رکھ سکے۔

مختصر لنک:

کاپی