بیت المقدس کو یہودیانے کی اسرائیلی سازشوں کے جلومیں القدس شہر میں فلسطینی قوم کا وجود ختم کرنے کے لیے اسرائیلی ریاستی مشینری دن رات سرگرم عمل ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی حکومت کی طرف سے القدس کےفلسطینی باشندوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جا رہے ہیں۔ انہیں ھجرت پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ان پر زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ القدس میں ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کے لیے زندگی مشکل کردی گئی ہے جب کہ دوسری طرف یہودی آباد کاروں کو ہرطرح کی سہولیات دی جا رہی ہیں۔
ان تمام سازشوں کا ہدف القدس میں فلسطینی قوم کے وجود کو ختم کرنا اور تاریخی شہر پر یہودی آباد کاروں کا آبادیاتی غلبہ قائم کرنا ہے۔
اسرائیلی مزاحمتی کمیٹی برائے دیوار فاصل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ القدس میں فلسطینیوں کا 70 مربع کلو میٹر کا رقبہ یہودیوں میں تقسیم کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی شہریوں کو گھروں کی تعمیر سے روک دیا گیا ہے۔
فلسطینی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے القدس میں فلسطینیوں کی 17 ہزار املاک جن میں بڑی تعداد میں گھر شامل ہیں کو مسمار کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں۔ ان میں سے پانچ ہزار پرعمل درآمد کردیا گیا ہے۔
انسداد یہودی آبادکاری کمیٹی کے مطابق اسرائیل نے سنہ 2000ء سے 2020ء تک کے منصوبے کے تحت القدس میں فلسطینی آبادی 40 فی صد کم کرکے 12 فی صد کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے تاہم صہیونی حکومت اس ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی کے بعد اسرائیل نے القدس کے فلسطینیوں پر زندگی مزید تنگ کردی ہے۔ القدس کے فلسطینیوں کے سولہ ہزار شناختی کارڈ منسوخ کردیے گئے ہیں۔ القدس کی کفر عقب اور شعفاط کیمپ خاص طور پر صہیونیوں کا ہدف ہیں۔
القدس سے فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب ہونے والے رکن احمد عطون نے مرکزاطلاعات سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل القدس میں یہودیوں کی آبادی بڑھانے کے لیے فلسطینیوں کی آبادی میں ایک لاکھ تیس ہزار کو جبرا بے دخل کرنا چاہتا ہے۔
احمد عطون کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک طے شدہ منصوبے کے تحت القدس میں فلسطینی آبادی کی تعداد میں فطری اضافے کو روکنے کی کوشش کررہاہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ناصر الھدمی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے پہلے القدس میں فلسطینی آبادی کو کم کرنے کے لیے 2020ء کا پلان تیار کیا۔ اس کا ہدف پورا نہ ہونے پر اب 2030ء کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے اسرائیل نے القدس میں معالیہ ادومیم اور غوش عتصیون جیسی بڑی یہودی کالونیوں کی شرقا غربا توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ناصر الھدمی کا کہنا کہ القدس میں فلسطینیوں کی آبادی پرعرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے اسرائیل مسجد اقصیٰ میں فلسطینی نمازیوں کی تعداد کم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کررہا ہے۔