"کس کی طرف سے حوالہ دیا گیا تھا؟ العربیہ چینل یا امد ویب سائٹ؟۔ یا اس کے برعکس؟ پھرکیوں ان میں سے ہرایک دوسرے کاحوالہ دینے کی تردید کرتے رہے؟۔ یا معاملہ اپنے مدمقابل کے سامنے "سرپرست” کی رضامندی حاصل کرنے کی دوڑ تھی۔ یہ کیسے معلوم ہوا کہ ہمیں رپورٹس کی یکساں نوعیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک نیوز ایڈیٹر نے اس کا مسودہ ایک ٹھنڈے اور ہوا دار کمرےمیں بیٹھ کرتیار کیا ہے۔ وہ آپ سے فلسطینی مزاحمت کے خلاف کہانیاں پسند کرتا ہےاور انہیں لوگوں میں بانٹا ہے۔
اس کہانی اور اس میں کیا ہے – جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ العربیہ چینل اور "امد نیوز” ویب سائٹ نے حماس بالخصوص جماعت کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ پر گذشتہ دنوں ایک میڈیا یلغارکی اور القسام کو بدنام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ناظرین کے سامنے "گمراہ کن” پروپیگنڈہ کرنے کا اصول اپنایا۔ اس مذموم مقصد کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے مختلف میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعہ تیار اور نشر کیا گیا۔
غزہ میں امہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی امور کے تجزیہ نگارعدنان ابوعامر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹیں صرف انہی سعودی-اماراتی میڈیا تک ہی کیوں محدود رہیں ، اور انھیں بین الاقوامی اور علاقائی ذرائع ابلاغ کو ایسا کوئی مواد کیوں نہیں ملا ؟ خطرناک اور حساس معلومات کے حصول میں "العربیہ ، الحدث ، امد اور الشرق الاوسط کے ذرائع کہاں ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ذرائع کی کمی اس رپورٹ کی توثیق پرشبہ ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا حماس اورالقسام بریگیڈ کے خلاف زہرآلود اور شرانگیز مہم پری پیڈ اور منظم منصوبے کا حصہ نہیں۔
ذرا نوٹ کریں کہ یہ مہم پہلی نہیں اور نہ ہی آخری ہوسکتی ہے۔ وقتا فوقتا عرب خطے میں اسرائیلی میڈیا فلسطینی مزاحمت اور اس کے فوجی دھڑوں کے خلاف مسلسل مہم چلا رہا ہے۔ عرب ذرائع ابلاغ اس مہم کا حصہ بن کر صہیونی ریاست کے ایجنڈے کوآگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سعودی عرب کے مالی اعانت سے چلنے والے العربیہ چینل کی ادارتی پالیسیوں کے مطابق جو متحدہ عرب امارات سے نشریات پیش کرتا ہے اسرائیل کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کے شعبہ مذاکرات کی ترجمان ویب سائٹ امد ایک ایسے شخص کی نگرانی میں کام کرتی ہے جو ماضی میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا حامی رہا ہے۔ وہ شخص حسن عصفورہے۔ وہ "جھوٹ اور بہتان” نشر کرکے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہر فرد اور تنظیم کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہا ہے۔
العربیہ اور "امد ” کی سربراہی میں جاری اس مہم نے اپنے پروگراموں اور خبروں کی اشاعت کے تہوں میں ، فلسطینی مزاحمت کے خلاف "نفرت” سے بھرپور مواد نشر کیا۔ خبر کی صداقت کو یقینی بنانے کے لیے باضابطہ ذرائع کی تصدیق کے بجائے اسرائیلی بیانیے پر انحصار کرکے العربیہ اور امد نیوز ویب سائٹ نے ثابت کیا ہے کہ وہ پیشہ وارانہ بنیادوں پر ابلاغ کا فریضہ انجام دینے کے بجائے فلسطینی کاز کے خلاف کام کرنے والوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
سیکیورٹی و دفاعی امور کے ماہر محمد ابو ھربید نے وضاحت کی کہ العربیہ ٹی وی کے ذریعہ شروع کی گئی امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ بدنام زمانہ منصوبے مہم صدی اور نام نہاد "الحاق کے منصوبے” کے نفاذ کے وقت سامنے آئی ہے۔ اس لیے اس مہم کو اس کی زمانی اہمیت کے اعتبار سے شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
ابو ہربید نے "مرکزاطلاعات فلسطین ” کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ من گھڑت مہم ، جس کے ذریعے چینل "اسرائیل اور عرب میڈیا ایجنسیوں کے ساتھ براہ راست یا بلاواسطہ شراکت میں فلسطینی مزاحمت کو مایوس کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
سیکیورٹی کے ماہر کا کہنا ہے کہ العربیہ اور اس کے عرب میڈیا کے ساتھی اسرائیلی پروپیگنڈہ مشین کے کے طور پرکام کرتے ہوئے صہیونی منصوبوں کو فروغ دینے کے لئے آلہ کار بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مہم اس لئے چلائی گئی ہے تاکہ مزاحمت کو بدنام اور رسوا کیا جائے اور فلسطینی عوام میں مزاحمت کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔ یہ اس لیے کیاگیا کیونکہ مزاحمت مخالف قوتیں فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو حلق میں کانٹا سمجھتی ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اشتعال انگیز مہم مزاحمتی گروہوں اور ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے شروع کی گئی ہے۔
ابو ھربید نے کہا کہ پرانی میڈیا مہمات گمراہ کن معلومات اور اس کی افراط زر پر انحصار کرتی ہیں تاکہ مخالفین کو کمزور کیا جاسکے اور اسرائیل کے ساتھ میڈیا کی شمولیت اختیار کرکے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور رہنمائوں کو بدنام کرکے فلسطینی عوام میں ان کی مقبولیت کم یا ختم کی جاسکے۔
العربیہ ٹی وی اور "امد” ویب سائٹ نے غلط بیانیے کو فروغ دیا۔ں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ غزہ میں وزارت داخلہ نے "القسام” کے ارکان کو اسرائیل سے رابطے دوسروں کے فرار کے الزام میں گرفتار کیا۔ تاہم غزہ میں وزارت داخلہ نے اس افواہ کی سختی سے تردید کی ہے۔
ایک پچھلے بیان میں وزارت داخلہ نے کہا قومی سلامتی وزارت نے القسام کے کسی رکن یا کمانڈر کو اسرائیل کے ساتھ رابطوں کے الزام میں گرفتار نہیں کیا ہے۔ اس حوالے سے سامنےآنے والی تمام اطلاعات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔